دہلی میں فضائی آلودگی کا مسئلہ

   

مشعلِ عزم نے جب روشنی دکھلائی ہے
دھند کے باوجود منزلِ مقصود نظر آئی ہے
دارالحکومت دہلی میں فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے ۔ ہر سال موسم سرما میں یہ مسئلہ عروج پر پہونچتا ہے اور فضائی آلودگی خطرناک سطح تک بڑھ جاتی ہے ۔ حکومت دہلی کی جانب سے مختلف اقدامات کا دعوی تو کیا جاتا ہے لیکن ساتھ ہی اس کی ذمہ داری پڑوسی ریاستوں پر بھی عائد کی جاتی ہے ۔ اترپردیش ‘ راجستھان ‘ ہریانہ اور پنجاب میں فصلوں کا کوڑا جلائے جانے کے نتیجہ میں آلودگی کی سطح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں عوام کی صحت متاثر ہو رہی ہے ۔ یہ در اصل عوام کو زہریلی سانس لینے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے ۔ اس کے نتیجہ میں عوام کو صحت کے بے شمار مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو دکھائی نہیں دیتا لیکن عوام مسلسل اس کے نتیجہ میں متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ عوام کی صحت پرا س کے اثرات دور رس ہوتے ہیں اور دیر سے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ عوامی صحت اور زندگیوں سے کھلواڑ جیسا مسئلہ ہے اور اس کی وجہ صرف حکومتوں کی لاپرواہی اور خود بری الذمہ ہونے کی کوششیں ہیں۔ جس طرح سے ریاستی حکومتیں اپنے آپ کو اس سے بری قرار دینے کی کوششیں کرتی ہیں اگر اسی طرح سے اس مسئلہ کی یکسوئی کی کوشش کی جائے تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ اگر اس مسئلہ کو پوری طرح ختم نہ بھی کیا جاسکے تو اس کے اثرات کو ممکنہ حد تک زائل اور کمزور ضرور کیا جاسکتا ہے ۔ دہلی کی حکومت ہو یا پھر مرکزی حکومت ہو یا دہلی کی پڑوسی ریاستوں والی حکومتیں ہوں سبھی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹال مٹول سے مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے اثرات مزید شدت اختیار کرتے جائیں گے اور وہ ایک دوسرے پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے یا پھر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے خود بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔ عوامی زندگیوں کا تحفظ ہر ایک کی ذمہ داری ہے اور اگر سانس لینے میں بھی عوام کو دشواری ہونے لگے اور اس کے نتیجہ میں ان کی صحت متاثر ہونے لگے تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ اس کو سیاسی وابستگی سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے اور ہر ایک اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ اس کی یکسوئی پر توجہ دینی چاہئے ۔
حکومت دہلی کی جانب سے کچھ معمولی سے اقدامات کئے جاتے ہیں اور اسکولس کو تعطیل دیدی جاتی ہے ۔ گاڑیوں کے چلن اور غیر ضروری تعمیرات پر بھی روک لگائی جاتی ہے ۔ تاہم یہ سب کچھ عارضی اور معمولی سے اقدامات ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت دہلی کی جانب سے راجستھان ‘ اترپردیش ‘ ہریانہ اور پنجاب کی حکومتوں کو بھی اس کیلئے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ فصلوں کا کوڑا نذر آتش کئے جانے کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہو رہی ہے ۔ اس بات میںسچائی بھی ہے ۔ پڑوسی ریاستوں کی حکومتوں کو بھی اس معاملہ کا سنجیدگی سے نوٹ لیتے ہوئے اس کی یکسوئی کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر مرکزی حکومت اپنی نگرانی میں ان تمام ریاستوں کی حکومتوں سے رابطہ کرے اور ان کا اجلاس منعقد کرتے ہوئے ماہرین سے تجاویز حاصل کرکے کوئی منصوبہ تیار کرے اور اس پر تمام ریاستیں سنجیدگی سے عمل کریں تو یہ انتہائی سنگین نوعیت کا اور حساس مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔ کم از کم اس کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے اور عوام کی صحت کا تحفظ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اگر اس مسئلہ کو عوامی صحت کی بجائے سیاسی وابستگی کی نظر سے دیکھا جائے ‘ جیسا اب کیا جا رہا ہے ‘ تو پھر اس کا حل دریافت ہونا آسان نہیں ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور قائدین تو اپنے آپ کو بچاہی لیں گے لیکن عوام اور ان کی صحت پر اس کے جو اثرات مرتب ہونگے ان کو ختم نہیں کیا جاسکے گا ۔ یہ ایک طرح سے عوام کی صحت اور ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے جیسا عمل ہی کہلائے گا ۔
چونکہ مرکزی حکومت بھی دہلی سے کام کرتی ہے اور کچھ امور مرکز کے بھی اختیار میں ہیں ایسے میں مرکزی حکومت کو اس میں قائدانہ رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ تمام متعلقہ ریاستوں کا اجلاس طلب کرتے ہوئے اس پر کام کرنا چاہئے ۔ ہر ریاست سے تجاویز حاصل کرتے ہوئے اصل مسئلہ کی سنگینی کو کم کرنے کے مقصد سے آگے بڑھنا چاہئے ۔ اگرا یسا نہیں کیا گیا تو پھر عوام کی صحت پر مسلسل اثرات مرتب ہوتے رہیں گے ۔ صحتمند ہندوستان کی تعمیر کی جو کوششیں حکومتیں کرنے کا دعوی کرتی رہتی ہیں ان کی قلعی کھل جائے گی اور یہ واضح ہوجائیگا کہ حکومتوں کو عوام اور ان کی صحت کی کوئی فکر اور پرواہ نہیںرہ گئی ہے ۔