دہلی ہائی کورٹ نبے پی او سی ایس او ایکٹ کی صنفی غیرجانبدارانہ نوعیت کی تصدیق کی‘ بیجااستعمال کے دعوؤں کوکیامسترد

,

   

یہ ریمارکس ایک پی او سی ایس او کیس کی سماعت کے دوران دئے گئے تھے جہاں ملزمان نے اس فعل کو صنفی تعصب کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔


نئی دہلی۔دہلی ہائی کورٹ نے کہاکہ جنسی جرائم سے بچوں کا تحفظ (پی او سی ایس او) ایکٹ 2012ایک صنفی غیر جانبدارقانون سازی ہے اور اسکے بیجا استعمال کے دعوی کو بھی مسترد کردیاہے۔یہ ریمارکس ایک پی او سی ایس او کیس کی سماعت کے دوران دئے گئے تھے جہاں ملزمان نے اس فعل کو صنفی تعصب کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔

جسٹس سورانا کانتا شرما نے ملزم کے مذکورہ قانون کے بیجا استعمال کے اس استدلال پر بات کرتے ہوئے کہاکہ جب متاثرہ بچوں کی بات آتی ہے تو یہ قانون غیر جانبدارنہ ہے۔

انہوں نے اس کیس میں دی گئی دلیل کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں الزام لگایاگیاتھا کہ شکایت کنندہ نے دوستی قرض کی وصولی کے لئے اپنی نابالغ لڑکی کو شامل کرتے ہوئے انہیں مجبور کیا‘ او راس طرح کی زبان کے استعمال کو غیرحساس قراردیاہے۔

عدالت نے مزیدکہاکہ کوئی بھی قانون‘ چاہئے وہ صنف پر مبنی ہو‘ غلط استعمال کے امکانات رکھتا ہے۔ اس میں کہاگیاہے کہ قوانین کے نفاذ کو محض غلط استعمال کے خوف سے نہیں روکا جاسکتا۔

ملزم کے وکیل نے استدلال دیاکہ پی او سی ایس او ایکٹ جنس پر مبنی ہے اور اس لئے اس کا غلط استعمال کیاجارہا ہے۔

جس پر عدالت نے کہاکہ ایسے دعوی نامناسب ہیں بلکہ گمراہ کن بھی ہیں۔ ایک ٹرائیل عدالت کی جانب سے متاثرہ نابالغ اور اس کی ماں کو جرح کے لئے واپس بلانے کی درخواست کو مسترد کئے جانے کے فیصلہ کو ملزم کی طرف سے چیالنج کی گئی درخواست پر یہاں عدالت میں سنوائی کی جارہی تھی۔

متاثرہ جو حادثہ کے وقت سات سال عمر کی تھی پہلے ہی جرح اورجرح کے لئے واپس بلائی جاچکی ہے۔ عدالت نے یہ کہتے ہوئے اس درخواست کو مسترد کردیاکہ اس درد واقعہ کے متعدد سالوں کے بعد متاثرہ کو بار بار جرح کے لئے واپس بلانے کا عمل ناانصافی ہوگا۔