دہلی یونیورسٹی ۔روٹی اپ کا واحد ذریعہ ہے‘ سی اے اے نہیں

,

   

نئی دہلی میں سارک ممالک کی جانب سے قاء م کردہ بین الاقوامی یونیورسٹی اس ہفتہ یہ تجویز کرتی ہوئی نظر آرہی ہے کہ طلبہ کو یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی روٹی کا ذریعہ کون ہے اور حکومت سے سوال کرنے سے انہیں گریز کرنا چاہئے

نئی دہلی۔ساوتھ ایشیائی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ایک گروپ نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ یہ مذکورہ ادارے کے کار گذار صدر اے وی ایس رامیش چندرا انہیں نئے شہریت قانون پر مباحثہ کے انعقاد کوروکنے کی کوشش کررہے ہیں اور کہہ رہے کہ یہ غیر منصفانہ ہوگا کیونکہ ”ہندوستان آپ کو روٹیاں دیتا ہے“۔

مذکورہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے تمام بڑے اخراجات کی نہ صرف پابجائی نئی دہلی کرتا ہے بلکہ اس کے نصف اپریشنل اخراجات بھی برداشت کرتا ہے۔

اسٹوڈنٹس کے مطابق چندرا نے انتباہ دیا ہے کہ اگر مباحثہ منعقدہوگاتو یونیورسٹی بند ہوجائے گی اور کیمپس انتظامیہ نے طلبہ کے پروگراموں سے متعلق قواعد میں سختی بھی لادی ہے۔

تاہم مذکورہ طلبہ نے ایک نامعلوم مقام پر جمعہ کے پروگرام کا انعقاد عمل میں لایا حالانکہ اس کے لئے ایک ہی مہمان کومدعو کیاگیاتھا کو یونیورسٹی کے باہر سے ائے ہوئے ایک ماہر تعلیم تھے جنھوں نے پروگرام کی اجازت نہ ملنے کی جانکاری دئے جانے کے بعد پروگرام سے دور رہے۔

پچھلی رات تک بھی یونیورسٹی نے منتظمین او رشرکاء کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی۔ دی ٹیلی گراف نے چندرا اور یونیورسٹی کے پی آر او اہیبام پرہلاد کو ایک ای میل جمعہ کی دوپہر ارسال کیاتھا جس کا رات تک بھی نہیں آیاحالانکہ پی آر و نے ای میل ملنے کی توثیق بھی کی ہے۔

طلبہ کے ایک غیر رسمی فورم مذکورہ اے ایس یو ریسرچ اسوسیشن نے منصوبہ بنایاتھا کہ”جمہوری کا سیاہ باب“ سی اے اے این آرسی او راین پی آر پر وضاحت“ کے عنوان سے ایک مباحثہ جمعہ کے روز کینٹین کے علاقے میں منعقد کرے مگر اس ہفتہ کے اوائل میں مذکورہ جگہ کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

اسوسیشن کے نمائندوں نے جب چندرا سے معاملے کو حل کرنے کے لئے ملاقات کی تو انہوں نے یہ ”روٹی“ والا تبصرہ کیا اور کئی طلبہ نے دی ٹیلی گراف کو اس کے متعلق بتایا بھی ہے۔

انہوں نے کہاکہ چندرا نے انہیں بتایا حکومت ہند یونیورسٹی کو فنڈس کی فراہمی میں فراخدلی کامظاہر ہ کررہی ہے۔

ایس اے یو اس کے سارک ممالک میں 600کے قریب طلبہ ہیں کی کارکردگی اکبر بھون کیمپس چانکیہ پوری سے ہوتی ہے‘ جو ماسٹرس اور ریسرچ پروگراموں کی پیشکش کرتی ہے۔

دیگر سات ممالک اس کے نصف اپریشنل اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ چہارشنبہ کے روز چندرا نے مبینہ طور پر طلبہ کا اجلاس طلب کیا اور انہیں انتباہ دیاکہ اگر کوئی تقریب طلبہ کی جانب سے منعقد کی جاتی ہے تو یونیورسٹی بند ہوجائے گی۔

جمعرات کے روز یونیورسٹی نے کسی بھی تقریب کے لئے طلبہ کو درکار اجازت کے قواعد میں تبدیلی پر مشتمل نئے قوانین کی اجرائی عمل میں لائی ہے۔ نئے قوانین کے خلاف 150کے قریب طلبہ نے چندرا کو احتجاجی مکتوب لکھا ہے۔