دینی مدارس پر امتناع سے گریز

   

ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے
دل میں چبھتے ہوئے خنجر نہیں دیکھے جاتے
دینی مدارس پر امتناع سے گریز
سپریم کورٹ نے اترپردیش میں دینی مدارس پر امتناع عائد کرنے سے متعلق کوششوں کو عملا مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ الہ آباد ہائیکورٹ نے یو پی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن 2004 قانون کو جو کالعدم قرار دیا تھا وہ غلط فیصلہ تھا ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اترپردیش میں16 ہزار سے زائد مدرسوں اور 17 لاکھ سے زائد طلبا کو راحت نصیب ہوئی ہے ۔ اترپردیش میں جس وقت سے آدتیہ ناتھ چیف منسٹر بنے ہیں اس وقت سے ہی مدرسوں کو نشانہ بنانے کی نت نئے انداز سے کوششیں کی جا رہی تھیں۔ کئی ایسے اقدامات کئے گئے جن کا مقصد و منشاء یہی تھا کہ ان دینی مدارس کو بندکردیا جائے یا پھر ان میں زیر تعلیم طلبا کو دینی تعلیم سے دور کرتے ہوئے دنیوی تعلیم کا حصہ بنا دیا جائے ۔ عدالتوں میں مفاد عامہ کی درخواستیں داخل کرتے ہوئے مسلمانوں کے امور کو نشانہ بنانے کی ایک روایت سی ملک میں چل پڑی ہے اور ایسی کوششوں کو ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی بھی تائدیو حمایت ملنے لگی ہے ۔ ایسی درخواستوں کی حکومتوں کی جانب سے عدالتوں میں حمایت اور مدافعت کی جانے لگی ہے ۔اترپردیش کے دینی مدارس کے تعلق سے بھی اسی طرح کی درخواست داخل کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ یہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے اور معمول کے نصاب کی تعلیم سے ان طلبا کو دور رکھا جاتا ہے ۔ اسی کو وجہ بناتے ہوئے مدارس سے متعلق قانون کو ہی کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی جس کا واحد مقصدو منشاء دینی مدارس کے وجود ہی کو ختم کرنا تھا ۔ اترپردیش کی حکومت نے اور مرکزی حکومت نے عدالت اپنا موقف پیش کرتے ہوئے اس مطالبہ کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ ان مدارس میں معمول کے نصاب کی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ اس لئے مدارس کو برخواست کرتے ہوئے ان میں زیر تعلیم طلبا کو عام اسکولوں میںداخل کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم عدالت نے اس استدلال کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ 17 لاکھ طلبا اور ہزاروں مدارس و اساتذہ کے مستقبل کا مسئلہ ہے اور طلبا کو دوسرے اسکولس کو منتقل کرنا ضروری نہیں ہے ۔ الہ آباد ہائیکورٹ نے اس قانون کو کالعدم قرار دیا تھا ۔
سپریم کورٹ نے آج فیصلہ سناتے ہوئے مدارس کو بند کرنے کی کوششوں کو عملا ناکام بنا دیا ہے تاہم ایک بات ضرور واضح ہوگئی ہے کہ حکومتیں بھی بالواسطہ طور پر فرقہ پرست عناصر کے ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے ہی کام کر رہی ہیں۔ یہ بھی اندیشے ہیں کہ حکومتوں کی ہی ایماء پر کچھ عناصر کو استعمال کرتے ہوئے انہیں عدالتوں سے رجوع کروایا جا رہا ہے تاکہ آر ایس ایس اور اسی سوچ و فکر کی حامی تنظیموں کے ایجنڈہ کو پورا کیا جاسکے ۔ ہندوستان میں دینی مدارس کی اپنی ایک مسلمہ حیثیت اور اہمیت ہے ۔ یہاں طلبا و طالبات کو نہ صرف مذہبی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے بلکہ انہیں پابند ڈسیپلن شہری بنایا جاتا ہے ۔ ان میں حب الوطنی کا جذبہ پروان چڑھایا جاتا ہے ۔ انہیں ملک کے تئیں ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جاتا ہے اور انہیں ذمہ دار شہری بناتے ہوئے ملک و قوم کے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دینی مدارس کو نشانہ بنانا سنگھ پریوار اور اس کی تنظیموں کا ہمیشہ سے مقصد و منشاء رہا ہے ۔ مدارس کے تعلق سے مختلف مواقع پر مختلف گوشوں کی جانب سے زہر افشانی کی جاتی رہی ہے اور کچھ گوشوں نے تو کھلے عام مدارس کو بند کرنے کی بات کہی تھی ۔ جہاں اترپردیش میںمدارس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں بی جے پی اقتدار والی ایک اور ریاست آسام میں بھی مدرسوں کو بند کرنے کیلئے باضابطہ مہم شروع کی گئی ہے ۔ بی جے پی جن جن ریاستوں میں برسر اقتدار ہے وہیں سے یہ کوششیں شروع ہو رہی ہیں اور وہیں سے انہیں حکومتوں کی تائید و حمایت بھی مل رہی ہے ۔
سپریم کورٹ کی جانب سے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر روک لگائے جانے کے بعد کم از کم ایسے عناصر کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ دینی مدارس کے طلبا کی جانب سے جنگ آزادی میں نبھائے گئے اہم ترین رول کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے ۔ان مدارس کو فرقہ وارانہ عصبیت کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے ان کے قوم کی تعمیر و ترقی میں رول کو سمجھنے اور اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے سے حکومتوں کو بھی گریز کرنا چاہئے ۔ حکومتوں کے کرنے کے کام ملک کی ترقی اور عوام کی بہتری کے ہیں۔ نزاعی مسائل کو ہوا دینے کا ان کا حصہ بننے سے حکومتوں کی امیج بھی متاثر ہوتی ہے ۔