ذکر اہلبیت سے لذت و حلاوتِ ایمان میں اضافہ

   

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ذرا سوچئیے! حسین علیہ السلام سے زیادہ محبوب اس امت میں مصطفی ﷺکو اور کون ہوگا؟ کربلا امام حسین علیہ السلام پر آنے والی مشکلات و مصائب کی ایک داستان ہے، اس کے ذکر کرنے سے خدا اور رسول ﷺکتنے خوش ہوں گے اس کا اندازہ لگانا ہی ناممکن ہے۔
ذکر حسین علیہ السلام ایمان میں استحکام کی علامت
چونکہ شہادت امام حسین کا ذکر آقا علیہ السلام نے کئی مرتبہ خود کیا اور احادیث نبوی میں مذکور ہے تو گویا ذکر شہادتِ حسین حدیث و سنت رسول ﷺبھی ہے۔ یعنی عمومِ سنت کے معنی میں یہ سنت الہٰیہ میں سے ہے جیسے سورۃ یوسف کے اطلاق کے ذریعہ بیان کیا اور واضح طور پر یہ سنت رسول ﷺہے۔یاد رکھ لیں کہ ان ہستیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا، ان کی شان، عظمت، عزم و استقامت، صبرو استقلال، تعلیمات اور ان کے اس پورے اقدام کی غرض و غایت کو یاد رکھنا، یہ ایمان میں استحکام کا باعث ہے… اس سے محبت میں مضبوطی نصیب ہوتی ہے… محبت کو جلا ملتی ہے… ایمان کو زندگی اور تازگی نصیب ہوتی ہے۔ لہذا طبیعتوں میں یہ رحجان پیدا کریں کہ جب ان کا ذکر سنیں، ان سے محبت کریں، ان کا پیغام سنیں تو جتنا ہوسکے ان کے پیغام کو زندگی میں نافذ اور جاری و ساری کریں۔ اس طرح محبت سے شروع ہونے والا سفر اتباع پر ختم ہوتا ہے۔ یعنی محبت حسین علیہ السلام اور اتباع حسین علیہ السلام دونوں یکجا ہوں تو اس ذکر کا مقصود پورا ہوتا ہے۔
محبتِ اہل بیت علیہ السلام احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضور نبی اکرم ﷺنہ صرف عملاً اہل بیت سے محبت و شفقت کا والہانہ اظہار فرماتے بلکہ اپنے فرامین میں صحابہ کرام علیہ السلام کے ذریعے امت مسلمہ کو بھی محبت اہل بیت کے احکامات صادر فرمائے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگو! میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میری اہل بیت کی محبت، مودت اور ان کے ساتھ معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ سے ڈرنا اور اس کو یاد رکھنا۔ اس کو آپ ﷺ نے دو بار دہرایا‘‘۔ (کنزالعمال)دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:’’میں تمہیں اپنی اہل بیت کے معاملے میں حکم دیتا ہوں کہ اللہ کو یاد رکھنا یعنی جب میری اہل بیت کا ذکر آئے تو خدا خوفی کرنا۔ یہ آپ ﷺنے تین بار کہا۔ (صحیح مسلم)

اس حدیث کے حوالے سے دو باتیں نہایت اہم ہیں: اول یہ کہ کسی مکتب فکر کا کوئی بھی شخص جو اہل سنت والجماعت ہونے یا سلفی ہونے یا اہل حدیث ہونے کا دعویدار ہے، وہ اس حدیث کی صحت سے انکار نہیں کرسکتا۔ یہ کسی نچلے درجے کی حدیث کی کتاب سے نہیں بلکہ صحیح مسلم کی حدیث صحیح ہے۔دوم یہ کہ یہ جاننا ہوگا کہ یہ فرماتے ہوئے حضور ﷺکا منشاء کیا تھا؟ آقا ﷺ کے اس فرمان کو اقرباء پروری نہیں کہیں گے، اس لئے کہ اگر کوئی ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ خیال ذہن میں لائے تو وہ کافر ہوگیا اس لئے کہ یہ حضور ﷺکی شان میں گستاخی ہے کہ کوئی حضور ﷺ کے کسی حکم اور عمل کو اقرباء پروری سے معاذ اللہ منسوب کرے۔ آقا علیہ السلام کی زبان پاک سے نکلا ہوا ہر لفظ اور ہر حکم ایمان ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔
اس فرمان کے ذریعے درحقیقت آقا علیہ السلام اپنی اہل بیت کے ساتھ محبت اور مؤدت کی نہ صرف تاکید کررہے ہیں بلکہ اسے امت مسلمہ پر لازم ٹھہرا رہے ہیں۔اب جو کوئی آقا علیہ السلام کانام لیوا ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺکے اس فرمان پر عمل پیرا ہو۔ اگر کسی کے دل میں بغضِ اہل بیت ہے، ذکر حسین علیہ السلام سے انکاری ہے تو وہ آقا ﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں اپنے دل سے اس کدورت کو نکال دے اور ذکر حسین علیہ السلام و مؤدت اہل بیت کے ذریعے حضور ﷺکیلئے فرحت و شادمانی کا باعث بنے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا:’’لوگو میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، اگر تم نے اِن دونوں کو تھامے رکھا تو گمراہ نہ ہوگے: کتاب اللہ اور میری اہل بیت۔ دیکھنا! میرے بعد تم اِن دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو‘‘۔ (جامع ترمذی)

یعنی ان چیزوں میں بڑا عظیم وزن ہے، ان کو ہلکا نہ جاننا۔ ثقلین فرماکر آپ ﷺ نے ذکر، محبت اور مؤدتِ اہلِ بیت کی اہمیت کو اجاگر فرمایا کہ ان کو ہلکا نہ جاننا، اسے نظر انداز نہ کردینا، یہ نہ سمجھنا کہ یہ ضروری نہیں۔
یاد رکھیں! دین ہم نے نہیں بنایا بلکہ اللہ نے بھیجا اور رسول ﷺنے ہمیں پہنچایا ہے۔ آپ ﷺکا محبتِ اہلِ بیت اور محبتِ حسین علیہ السلام پر رویہ، رجحان اور تعلیمات اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ آپ ﷺنے اس موضوع کو حد درجہ اہمیت دی تب ہی متعدد مواقع پر اس کی تاکید فرمارہے ہیں۔آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث صحیح اور حکم صحیح کی روشنی میں یہ بات طے ہوئی کہ جس طرح قرآن مجید کو نظر انداز کردینا جرم ہے، اسی طرح محبت و مؤدت اہلِ بیت کو نظر انداز کردینا جرم ہے۔
قرآن مجید کو نظر انداز کرنا یہ ہے کہ کوئی قرآن کی تلاوت نہ کرے، اس سے محبت نہ کرے، اس کی تعلیم نہ لے، قرآن کو اپنی زندگی میں جاری نہ کرے، قرآن سے تعلق توڑ لے، قرآن کی طرف رجوع نہ رکھے۔ ایسا کرنے والا گمراہ ہوگیا۔ اہل بیت نبوت کو نظر انداز کرنا یہ ہے کہ ان کی محبت اور مؤدت اس کے دل میں موجود نہ ہو… ان کی تعظیم و تکریم نہ کرے… ان کے ذکر سے الفت نہ رہے… ان کا احترام و اکرام نہ رہے… انکی عظمت اور شان دل میں نہ رہے۔ ایسا کرنا بھی سراسر گمراہی ہے۔ جس طرح قرآن مجید کی تلاوت سے لذت و حلاوت ایمان نصیب ہوتی ہے اس طرح ذکر اہل بیت سے بھی دلوں میں لذت اور حلاوت آنی چاہئے۔ جس شخص کو اہل بیت کے ذکر سے حلاوت، لذت اور کیفیت محسوس نہ ہو، وہ حلاوت ایمانی سے محروم ہے۔ حضور ﷺنے اسی لئے قرآن مجید اور اہل بیت کو اکٹھا بیان کیا کہ دیکھنا! میرے بعد ان دونوںکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو…؟ میرا کتنا حیاء کرتے ہو…؟
محبتِ اہل بیت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طرزِ عمل
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اہل بیت کے ساتھ کس نوعیت کا محبت و مؤدت کا رشتہ تھا…؟ آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس سے یہ تعین ہوجائے گا کہ اس کو محض اہل تشیع کا شعار قرار دیں یا عقیدہ اہل سنت کی اساس و بنیاد مانیں۔ حضور نبی اکرم ﷺکے فرامین کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا محبت و مودت اہل بیت کا رویہ نہایت اعلیٰ و ارفع تھا: حضرت عقبیٰ بن حارث روایت کرتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گلی میں جارہے ہیں اور سیدنا امام حسن علیہ السلام کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور کہہ رہے کہ مجھے اپنے باپ کی قسم! حسن، مصطفی ﷺ کی شبیہ ہے، علی تمہاری شبیہ نہیں ہے۔ حضرت علی یہ سن کر ہنس دیئے‘‘۔ (صحیح بخاری)
سوال یہ ہے کہ کندھوں پر اٹھا کر کیوں چل رہے ہیں؟ ان کے اپنے بیٹے بھی تھے۔ میں نے زندگی میں کسی کتاب میں نہیں پڑھا کہ وہ اپنے بیٹوں کو کندھے پر اٹھا کر گلیوں میں چل رہے ہوں۔ نواسہ مصطفی ﷺ کو اُٹھا کر چل رہے ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ مصطفی ﷺ کو دیکھا تھا کہ وہ حسنؓ و حسینؓ کو کندھوں پر بٹھا کر گلی میں چلتے ہیں۔ گویا وہ سمجھتے تھے کہ حُب رسول کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے مصطفی ﷺنے محبت کی اس سے ہم بھی محبت کریں۔ جس کو مصطفی ﷺ نے کندھے پر بٹھایا اسے ہم بھی کندھے پر بٹھائیں۔دوسری روایت میں ہے کہ ایک کندھے پر امام حسن علیہ السلام کو اور ایک پر امام حسین علیہ السلام کو بٹھا کر گلی میں چل رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ خدا کی قسم حسن اور حسین علی کی نہیں بلکہ مصطفی ﷺ کی شبیہ ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ کی قرابت مجھے اپنی قرابت سے زیادہ پیاری ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اُرْقُبُوْ محمدًا فِیْ اَهْلِ بَیْتِهٖ فَمَعْنَاهُ ایْ اُنْظُرُوْاهُ وَاحْسِنُوْهُ فی اَهْلِ بَیْتِی.(صحیح بخاری)
یعنی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت میں مصطفی ﷺ کو دیکھنا …حضور ﷺ کی اہل بیت میں حضور ﷺ کا نظارہ کرنا …حضور ﷺ کی اہل بیت کے تعلق میں حضور ﷺکا حیاء کرنا… حضور ﷺکی اہلبیت کی محبت، مودت، عزت و احترام کے ذریعے حضور ﷺ کو خوش کرنا۔ یعنی اہل بیت کے آئینے میں حضور ﷺ کو دیکھنا۔ جب بھی اہل بیت کے کسی شہزادے سے تعلق کا وقت آئے، علی شیر خدا ہوں یا سیدہ فاطمۃ الزہراء علیہا السلام ہوں … امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ہوں یا امام حسین علیہ السلام ہوں زین العابدین علیہ السلام ہوں یا امام محمد باقر علیہ السلام ہوں… جعفر الصادق علیہ السلام ہوں یا موسیٰ کاظم علیہ السلام ہوں…جب آقا ﷺ کی آل پاک اور اہل بیت اطہار کو دیکھو تو ایمان یہ ہے کہ ان کے آئینے میں تمہیں مصطفی ﷺکا چہرہ نظر آئے۔
پس جب ان کا حیاء کرو تو تمہیں پتا ہو کہ ان کا نہیں بلکہ مصطفی ﷺ کا حیاء ہورہا ہے… ان سے مؤدت نہیں بلکہ مصطفی ﷺ سے مؤدت ہورہی ہے… ان سے محبت نہیں بلکہ مصطفی ﷺ سے محبت ہورہی ہے…ان کی تعظیم نہیں بلکہ مصطفی ﷺکی تعظیم ہورہی ہے… گویا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اصول وضع کردیا کہ اگر تم صاحب ایمان ہو تو اہل بیت کے اندر تمہیں ذات مصطفی ﷺ دکھائی دینی چاہئے۔ اہل بیت ایک آئینہ ہے، اس آئینے میں چہرہ مصطفی ﷺ دکھائی دے۔ اس لئے کہ ان سے محبت حضور ﷺسے محبت ہے۔ یہ عقیدہ اہل سنت ہے۔ اگر ’ارقبو محمدا فی اہل بیتہ‘ کی روش نہیں تو آپ کا تعلق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی نہیں اور جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نہیں وہ کہاں کا اہلسنت ہے؟ وہ خارجی ہے، بے ایمان ہے۔ جسے حکم رسول ﷺ کا حیاء نہیں، اس کا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں۔یہی عمل جمیع صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہل بیت سے عقیدت
قاضی عیاض نے الشفاء میں، امام سخاوی نے الاستجلاب میں اور دیگر بہت سی کتبِ سیرت اور اسماء رجال کی تمام کتب میں ہے کہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے پوتے امام عبداللہ بن حسن المثنیٰ بن الامام حسن المجتبیٰ خود روایت کرتے ہیں کہ میں کسی کام کے سلسلہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جن کو خلیفہ راشد خامس بھی کہتے ہیں) کے پاس گیا۔ میں اُن سے چھوٹا تھا مگر وہ مجھے دیکھ کر فوری کھڑے ہوگئے، میری حاجت پوری کی اور پھر مجھ سے دست بستہ عرض کرنے لگے: ’’آئندہ خدا کے لئے میرے پاس نہ آنا، کوئی کام ہو تو بس ایک چٹ لکھ کر بھیج دیا کریں یا کسی بندے کو بھیج دیں، آپ کے حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔ آپ کو اپنے دروازے پر دیکھ کرمجھے حیاء آتا ہے۔ قیامت کے دن خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا‘‘۔
امام سخاوی نے الاستجلاب میں بیان کیا ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ بنت علی ابن ابی طالب روایت کرتی ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر تھے۔ کسی ضرورت سے میں ان کے پاس گئی۔ ان کو میر ی آمد کی اطلاع ملی اور آپ فوری دوڑ کر دربار سے باہر نکل آئے اور کہنے لگے:’’اے علی المرتضیٰ کی شہزادی! خدا کی قسم روئے زمین پر آپ ؓحضور ﷺ کی اہل بیت ہیں آپ سے بڑھ کر کائنات کا کوئی گھرانہ میرے نزدیک محبوب نہیں ہے حتی کہ میرے اپنا گھرانہ میری اولاد بھی آپ پر قربان۔ ان سے بھی زیادہ آپؓ اعزو احب و اکرم ہیں‘‘۔
حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک کام اُن سے کہا، وہ کام کردیا۔ اس کے بعد یہ کہا جو آپ ہمیشہ اہل بیت کے ہر شہزادے؍شہزادی سے عرض کرتے تھے: آپ اہل بیت رسول ﷺ سے میری ایک درخواست ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت کردینا۔ مجھے بھول نہ جانا، وہاں بتانا کہ ہماری نوکری کرتا تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز سے پوچھا گیا کہ یہ بنوہاشم ہیں، اہل بیت رسول ﷺ ہیں، کیا ان کی آنے والی نسلیں بھی شفاعت کریں گی؟ انہوں نے کہا: ’’خدا کی قسم حضور کے خانوادہ پاک بنو ہاشم کے چھوٹے سے چھوٹے بچے کو بھی قیامت کے دن حق شفاعت ہوگا۔ قیامت والے دن جس کی وہ شفاعت کرے گا بخشا جائے گا‘‘۔ (اس کو امام اصفہانی نے الاغانی میں بیان کیا ہے۔ امام دنیوری نے المجالسہ میں بیان کیا ہے اور دیگر بہت سے ائمہ و علماء نے اس کو بیان کیا ہے۔)اہل بیت اطہار کا کوئی بھی شہزادہ ہوتا، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کی تعظیم و تکریم میں اس روش کا اظہار کرتے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ساتھ کوئی نسبت، کسی کی رشتہ داری ہو تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ بھی محبتوں بھرا سلوک کرتے۔
امام شعبی روایت کرتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوا۔ جنازے سے فارغ ہونے کے بعد اُن کی ضعیفی اور کمزوری کی وجہ سے ان کے لئے سواری (اونٹ) قریب کی گئی تاکہ انہیں بٹھایا جائے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ادب و احترام کی بناء پر ان کے پاؤں کو رکاب میں رکھوانے کے لئے رکاب تھام لی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلیل القدر اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے تھے اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کی اہلبیت میں سے بھی تھے مگر صغار صحابہ کرام میں سے تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے ہٹ گئے اور فرمانے لگے کہ اے ابن عباس ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا: هٰکَذَا نَفْعَلُ بِعُلْمَآئِنَا.
’’ہم علماء کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں‘‘۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیزی سے جھکے اور
فَقَبَّلَ زَیْدَا یده
حضرت عبداللہ ابن عباس کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا۔ انہوں نے پوچھا: آپ نے یہ کیا کیا؟ فرمایا:
هٰکَذَا اُمِرْنَا اَنْ نَفْعَلَ بِاَهْلِبَیْتِ نَبِیِنا.
’’ہمیں یہ حکم ہے کہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلبیت کے ساتھ ہم ایسا کیا کریں‘‘۔
(اس واقعہ کو طبرانی نے مسند الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں روایت کیا اور فرمایا کہ رجالہ رجال الصحیح۔ امام حاکم نے مستدرک میں روایت کرکے اس کو حدیث صحیح کہا۔ علامہ ذہبی نے اس کی تائید کی کہ صحیح ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں بیان کیا۔ اسی طرح امام بیہقی نے بھی بیان کیا۔)
یہ اور اس طرح کے تمام واقعات اس امر کو واضح کرتے ہیں کہ صحابہ کرام، تابعین اور اکابرین کس طرح اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت کا اظہار کرتے۔