رائے دہی کا گرتا ہوا تناسب

   

تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات کا عمل پورا ہوچکا ہے ۔ اب صرف آخری مرحلہ میں ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان باقی ہے ۔ الیکشن کے لئے مہم چلاتے ہوئے سیاسی جماعتوں نے عوام پر بارہا زور دیا تھا کہ وہ رائے دہی سے دلچسپی دکھائیں۔ رائے دہی کے دن تعطیل یا چھٹی منانے یا تفریح کیلئے نکل جانے کی بجائے ووٹ ڈالتے ہوئے اپنی جمہوری ذمہ داری کو پورا کریں۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکٹورل آفیسر کی جانب سے بھی بارہا عوام میں رائے دہی سے دلچسپی میں اضافہ کرنے کیلئے اقدامات کئے گئے ۔ باضابطہ مہم چلائی گئی ۔ سوشیل میڈیا پر ویڈیو کلپس جاری کئے گئے ۔ اخبارات میں اشتہارات جاری کئے گئے ۔ ذی اثر شخصیتوں کے ذریعہ عوام پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے ووٹ کا ضرور استعمال کریں۔ اس کے علاوہ پولیس کی جانب سے بھی رائے دہی کو خوف اور کسی دباؤ سے آزاد بنانے کیلئے جامع اور موثر انتظامات کئے گئے تھے ۔ انتخابی عمل عوام کی شراکت داری اور حصہ داری کے بغیر بالکل ادھورا ہوتا ہے ۔ انتخابات عوام کیلئے ہی منعقد ہوتے ہیں اور عوام ہی کو اپنے ووٹ کے ذریعہ اپنے نمائندوں کا انتخاب اور حکومت کی تشکیل کرنی ہوتی ہے ۔ تاہم کچھ وقت سے دیکھا جا رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں سے وابستگی یا عدم وابستگی سے قطع نظر لوگ رائے دہی کیلئے پولنگ بوتھس تک نہیں آ رہے ہیں۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں یہ رجحان زیادہ ہوگیا ہے ۔ لوگ جمہوری عمل کا حصہ بننے سے گریزاں ہیں۔ ان کے ہاتھ میں جب اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع ہوتا ہے تب بھی یہ لوگ اپنے اس حق کا استعمال نہیں کرتے اور پھر پانچ سال تک اپنے نمائندوں یا حکومتوں کے خلاف رائے ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ ایسے افراد کی رائے کوئی معنی نہیں رکھتی اور نہ ہی انہیں کسی کو تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی اختیار ہوتا ہے ۔ دیہی علاقوں اور ٹاؤنس میں پھر بھی شہری علاقوں کی بہ نسبت رائے دہی کا تناسب قدرے بہتر ہوتا ہے لیکن شہری حدود میں جہاں لوگ خود کو باشعور قرار دیتے ہیں یہ رجحان کم ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو سوشیل میڈیا پر بھی سرگرم رہتے ہیں لیکن سوشیل میڈیا مہم بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوسکی ۔
شہری حدود میں رہنے والے تمام ہی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی رائے دہی سے بیزاری دیکھنے کو مل رہی ہے اور ہمارے لئے زیادہ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ مسلم اکثریتی حلقہ جات میں بھی رائے دہی کے تناسب میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ حیدرآباد شہر کے کچھ اسمبلی حلقہ جات میں مسلم رائے دہندوں کی غالب تعداد پائی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود یہاں رائے دہی کا تناسب ہر بار کی طرح اس بار بھی کم ہی ہوا ہے ۔ سابقہ تناسب تک برقرار نہیں رکھا جاسکے ۔ لوگ بآسانی عوامی نمائندوں یا سیاسی جماعتوں سے اپنی ناراضگی یا بیزاری کا عذر پیش کرتے ہوئے رائے دہی سے دور ہوجاتے ہیں لیکن ایسے امیدواروں اور نمائندوں کے منتخب ہوجانے کیلئے بھی وہی لوگ زیادہ ذمہ دار ہیں جو ووٹ کا استعمال نہیں کرتے ۔ جب یہ لوگ اپنی رائے ہی ظاہر نہیں کرتے اور ان کے ہاتھ میں جب موقع ہوتا ہے تو اسے گنوا بیٹھتے ہیں تو پھر انہیں کسی طرح کی شکایت کرنے کا اختیار نہیں رہ جاتا ۔ مسلمانوں اور اقلیتی برادریوں کو اپنی آواز ایوان اسمبلی تک پہونچانے کیلئے اور اپنی پسند کے نمائندوں کو منتخب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں لیکن تمام تر توجہ دہانیوں ‘ شعور بیداری مہم اور کئی طرح کی کوششوں کے باوجود یہ تناسب بڑھنے کی بجائے گھٹتا جا رہا ہے اور یہ افسوسناک صورتحال ہے ۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں رائے دہی سے عوام کی یہ دوری یا بیزاری یقینی طور پر باعث تشویش کہی جاسکتی ہے ۔
ہندوستان بھر میں ویسے تو کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں 90 فیصد تک رائے دہی ہوتی ہے ۔ تلنگانہ میں بھی دو اسمبلی حلقہ جات ایسے رہے ہیں جہاں 90 فیصد سے زیادہ پولنگ کی گئی ہے ۔ یہ حوصلہ افزاء صورتحال ہے ۔ تاہم کئی حلقے ایسے ہیں جہاں رائے دہی 50 فیصد تک بھی نہیں پہونچ پائی ہے ۔ جہاں نصف سے زیادہ آبادی اپنی رائے ہی نہ دے وہاں پھر عوامی نمائندوں کی کارکردگی پرسوال کس طرح سے پوچھے جائیں گے ؟ ۔ معمولی تناسب سے ووٹ حاصل کرنے والے پھر قانون ساز ایوانوں تک پہونچ جاتے ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ صرف رائے دہندوں پر عائد ہوتی ہے ۔