راجستھان میں بھی انتخابی مہم ختم

   

موجیں اٹھلا کے تو بہت اُٹھیں
لب ساحل سنبھل گیا طوفاں
ملک کی پانچ ریاستوں کے منجملہ چوتھی ریاست راجستھان میں بھی آج انتخابی مہم ختم ہوگئی ۔ تین ریاستوں میزورم ‘ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں تو پولنگ بھی ہوچکی ہے اور وہاں صرف نتائج کا انتظار ہے ۔ اب چوتھی ریاست راجستھان میں بھی آج انتخابی مہم اپنے اختتام کو پہونچی اور وہاں ہفتہ 25 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ انتخابی مہم کی گرد اب دبنے لگی ہے اور عوام گذشتہ تقریبا ایک ماہ کی شدت کے ساتھ چلائی گئی مہم پر غور کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا فیصلہ کرینگے اور یہ طئے کریں گے کہ ریاست میں ہر پانچ سال میں اقتدار بدلنے کی روایت برقرار رہتی ہے یا پھر یہ رواج ہی بدل جاتا ہے ۔ بی جے پی ریاست میں جو روایت اور رواج ہے اس پر زیادہ تکیہ کئے ہوئے ہے اور اسے یقین ہے کہ وہ اقتدار پر واپسی کرے گی تاہم کانگریس کے حوصلے بھی بہت بلند ہیں اور اسے بھی یقین ہے کہ اس بار ریاست میں راج ( حکومت ) نہیں بلکہ رواج ( روایت ) بدل جائے گی ۔ کانگریس قائدین نے منظم انداز سے اس بار مہم میں حصہ لیا ہے ۔ پارٹی قائدین میں اختلافات اور انتشار کی کیفیت بھی اس بار دیکھنے میں نہیں آئی ۔ انتخابی عمل کے باضابطہ آغاز کے قبل ہی مرکزی قیادت نے ریاستی قائدین کے اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے اتحاد کو یقینی بنایا تھا اور ساری انتخابی مہم کے دوران بھی چیف منسٹر اشوک گہلوٹ اور نوجوان لیڈر سچن پائلٹ نے اتحاد ہی کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف کسی طرح کے ریمارکس یا تبصروں سے گریز کیا ہے ۔ اب جبکہ مہم ختم ہوگئی ہے تو یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ انتخابی مہم میں کس جماعت نے کیا کچھ موقف اختیار کیا تھا ۔ عوام سے کس طرح کے وعدے کئے گئے تھے ۔ کس طرح کی پالیسی اختیار کی گئی تھی ۔ کس جماعت کے ارادے کیا ہیں اور کن منصوبوں کے ساتھ ریاست میں عوام کی تائید حاصل کرنے کی ان جماعتوں کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے ۔ ویسے تو کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی جماعتوں نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ مہم چلائی ہے تاہم عوام کیلئے کس پارٹی نے کیا کچھ وعدے کئے ہیں وہ انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔
بی جے پی کی جانب سے عموما مفت راشن اورمندر درشن تک ہی بات محدود رکھی گئی ۔ پارٹی کے مرکزی قائدین زیادہ تر عوامی مسائل پر اظہار خیال کرنے اور مودی حکومت کے کارناموں کو پیش کرنے کی بجائے اختلافی نوعیت کے اور نزاعی مسائل ہی کو ہوا دینے میں مصروف رہے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے مفت راشن اور مندر درشن کے بارہا اعلانات کئے ہیں۔ رام مندر اور دیگر منادر کے مفت درشن کروانے کے وعدے کئے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ راجستھان کے عوام کیلئے آئندہ پانچ برسوں میں کیا کچھ پروگرامس روبعمل لائے جائیں گے ۔ عوام کے مسائل کو حل کرنے اور انہیں راحت پہونچانے کیلئے کیا منصوبے ہیں۔ عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری سے راحت کس طرح سے پہونچائی جائے گی ۔ یہ سارے موضوعات بی جے پی قائدین کی مہم میں شامل نہیں رہے ہیں۔ جہاں تک کانگریس کی بات ہے تو اس نے اپنی معیاد کے آخری ایام میں ریاست کے عوام کیلئے مختلف اقدامات کا آغاز کیا ہے ۔ پکوان گیس سلینڈر کو 500 روپئے میں فراہم کیا جارہا ہے ۔ خواتین کیلئے کچھ سہولیات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ 100 یونٹ تک بجلی مفت کردی گئی ہے اور مزید 100 یونٹ کو نصف شرح پر سربراہ کیا جا رہا ہے ۔ آئندہ پانچ برسوں کیلئے بھی کانگریس پارٹی نے کئی وعدے کئے ہیں۔ کچھ منصوبوں کا اعلان کیا ہے اور بیروزگاری کو دور کرنے کیلئے مختلف اقدامات کا بھی پارٹی اور اس کے قائدین کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا گیا ہے ۔
راجستھان کے عوام کے سامنے اب موقع ہے کہ وہ کارکردگی دکھانے والوں یا پھر جذباتی نعروں کے ذریعہ تائید پانے کی کوشش کرنے والوں کے درمیان کسی کا انتخاب کریں۔ یہ واضح کریں کہ انہیں ریاست میں کس طرح کی حکمرانی کی ضرورت ہے ۔ ان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنے والے حکمران چاہئیں یا پھر فرقہ وارانہ خطوط پر عوام کو بھڑکاتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے والوں کی عوام کو ضرورت ہے ۔ کسی طرح کی جذباتیت یا کسی طرح کے لالچ کا شکار ہوئے بغیر راجستھان کے عوام کو اپنی سیاسی فہم و فراست اور بصیرت کا استعمال کرتے ہوئے ملک کی دیگر ریاستوں کیلئے مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔