راجیہ سبھا میں ارکان کی معطلی غیرجمہوری

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کا 29 نومبر 2021ء کو آغاز ہوا۔ لوک سبھا میں ہر دن مختلف بلوں، تحریکوں وغیرہ پر بحث کی جارہی ہے۔ کئی موضوعات پر مباحث ہوئے، لیکن راجیہ سبھا میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ فی الوقت جو سب سے بڑا مسئلہ اور جس نے راجیہ سبھا پر اپنا سیاہ سایہ ڈالا ہوا ہے، وہ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 12 ارکان کی معطلی ہے۔ ان ارکان کو 24 ڈسمبر تک معطل کردیا گیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ 24 ڈسمبر کو ہی پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔
اپوزیشن کے 12 ارکان راجیہ سبھا کی معطلی کو لے کر ساری اپوزیشن کافی برہم ہے۔ کچھ زیادہ برہم ہے تو کچھ جماعتیں کم برہم ہیں۔ اس معطلی کے خلاف تمام اپوزیشن نے متحدہ طور پر احتجاج کیا۔ متحدہ طور پر احتجاج مارچ کیا اور متحدہ طور پر میڈیا سے خطاب کیا۔ راجیہ سبھا میں بھی اپوزیشن ارکان نے اپنے ساتھیوں کی معطلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہنگامہ برپا کیا اور ایوان کی کارروائی میں ایک طرح سے کسی بھی انداز میں حصہ لینے سے انکار کیا۔ وقفہ ٔ صفر کے دوران چند ارکان نے سوالات کئے یا خصوصی تحریکات پیش کئے۔ پارلیمنٹ کی لابیوں اور مرکزی ہال (سنٹرل ہال) میں متضاد خیالات سننے کو ملے۔ ایوان کے باہر 12 معطل شدہ ارکان مجسمہ گاندھی کے سامنے احتجاجی دھرنے پر بیٹھے رہے ہیں۔ وہ اپنی معطلی کو لے کر کافی برہم اور ناراض ہیں۔ بہرحال پارلیمنٹ کی جو موجودہ صورتحال ہے۔ اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔
تنازعہ شروع کہاں سے ہوا؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تنازعہ کہاں سے شروع ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پچھلے اجلاس کے آخری دن 11 اگست 2021ء کو کیا ہوا تھا۔ وہی تنازعہ کا باعث بنا، اس دن سے متعلق پارلیمنٹ کے بلیٹن پارٹ ۔ 1 کے مطابق بعض ارکان ایوان کے وسط میں جمع ہوگئے اور وہاں ان لوگوں نے پلے کارڈس دکھانا شروع کیا، نعرہ بازی کی اور ایوان کی کارروائی کو مسلسل روکتے رہے۔ جن ارکان نے ہنگامہ آرائی کی۔ راجیہ سبھا کے بلیٹن میں ایسے ارکان کی تعداد 33 بتائی گئی لیکن اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا کہ آیا ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے یا نہیں۔
آخر ہوا کیا جس کے نتیجہ میں 12 ارکان کو ایوان سے معطل کردیا گیا۔ اگر جو کچھ ہوا وہ سچ ہے تو پھر بہت ہی بدبختانہ ہے لیکن ایسا نہیں جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی ہو۔ آنجہانی ارون جیٹلی راجیہ سبھا میں جس وقت قائد اپوزیشن (بی جے پی) تھے، انہوں نے ایوان کی کارروائی میں خلل کو جائز پارلیمانی حربہ قرار دیا تھا۔ راجیہ سبھا میں ہنگامہ گزشتہ اجلاس کے آخری دن پیش آیا۔ 11 اگست کو 7 بجکر 46 منٹ پر بناء کوئی کارروائی غیرمعینہ مدت کیلئے اجلاس ملتوی کردیا گیا۔
29 نومبر کو جو اجلاس شروع ہوا وہ نیا سیشن یااجلاس تھا۔ ایوان کی کارروائی صبح 11 بجے شروع ہوئی۔ اس سے قبل جو ارکان انتقال کرگئے۔ انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا، ان کے ارکان خاندان سے اظہار تعزیت کیا گیا اور بطور احترام اجلاس ایک گھنٹے کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ 12:20 منٹ اجلاس دوبارہ شروع کیا گیا اور حسب معمول کارروائی کا آغاز ہوا۔ لنچ کے وقفہ کے بعد دوپہر 2 بجے زرعی قوانین بلز کی منسوخی سے متعلق بل کو بناء کسی مباحث کے منظور کیا گیا۔ (اس پر میں اپنا تبصرہ محفوظ رکھتا ہوں) ایوان کو پھر سے 3 بجکر 8 منٹ تک ملتوی کردیا گیا۔ ان حالات میں ایک وزیر نے 12 اپوزیشن ارکان کو مابقی اجلاس کیلئے معطل کرنے کی تحریک پیش کی اور اس تحریک کو ایوان میں منظور کیا گیا۔ ارکان نے اس کے خلاف زبردست احتجاج کیا (یہ بات پارلیمنٹ بلیٹن پارٹ۔1 مورخہ نومبر 29 میں بتائی گئی ہے)
متنازعہ رول : دوسرے دن معطل شدہ ارکان نے دھرنا منظم کیا اور یہ دھرنا تین ہفتوں تک جاری رہا۔ اس کے باوجود حکومت اپوزیشن کے سامنے جھکنے کیلئے تیار نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کسی مثبت نتیجہ پر پہنچنے کیلئے صدرنشین رضامند ہی نہیں تھے۔
ان کی معطلی پر جس قاعدہ کا اطلاق ہوتا ہے، وہ قاعدہ نمبر 256 ہے۔ قاعدہ واضح ہے۔ راجیہ سبھا کے ریکارڈ میں معطل شدہ ارکان کے ناموں کا اندراج عمل میں نہیں آیا۔ لیکن 29 نومبر کو 3 بجکر 6 منٹ پر جب راجیہ سبھا کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تب وزیر پارلیمانی اُمور نے 12 ارکان کو معطل کرنے کیلئے ایک تحریک پیش کی اور بلیٹن میں کہا گیا کہ تحریک منظور کی گئی لیکن اس پر حکومت نے ارکان کی رائے لینی ضروری نہیں سمجھی۔ اپوزیشن نے متفقہ طور پر کہا کہ رائے نہیں لی گئی۔ بہرحال راجیہ سبھا میں جو کچھ ہوا، وہ بدبختانہ ہے اور یہ دراصل ارکان کی اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔