راہِ سلوک اورنفس کی تربیت

   

ہدایت و رہنمائی اور ارشاد و اصلاح کی کامیابی رہنما یا مصلح کی ذہنی اور عملی صلاحیتوں پر ہوتا ہے کسی شخص سے نصیحت کے چند جملے کہہ دینا کوئی مشکل کام نہیں ، لیکن اس نصیحت کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی کا سانچہ بدل دینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔اس کے لئے کردار کی بہت سی خوبیاں درکار ہیں۔ مربی اور معلم اخلاق کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود ان اخلاقی اقدار کا حامل ہو جن کی تبلیغ وہ دوسروں کو کرتا ہے ۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے : کیا تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے کو بھول جاتے ہو۔
بے عمل انسان کے الفاظ ، کسی کی لوح دل پر نقش نہیں بناسکتے ۔ وہ زبان سے نکل کر کانوں پر ٹکراتے اور فضائوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ دل تک تو صرف اس شخص کی آواز پہنچتی ہے جس کے الفاظ کے پیچھے عمل کی بے پناہ قوت ہوتی ہے ۔ کسی نے کہا ہے ؎
واعظ کا ہر ایک ارشاد ، تقریر بہت دلچسپ مگر
آنکھوں میں سرورِ عشق نہیں، چہرے پہ یقیں کا نور نہیں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے اخلاق کیا تھے ؟ فرمایا : کیا تم نے قرآں نہیں پڑھا : ’’کان خلقہ القرآن ‘‘ یعنی اخلاق قرآن پاک میں الفاظ کی صورت میں ہے وہ درحقیقت حامل قرآن ﷺکی سیرت میں عملی صورت میں موجود ہے ۔
سلطان المشائخ حضرت نظام الدین محبوب الٰہی قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کمال دیکھو کہ جس کام کی اوروں سے درخواست کی پہلے خود عمل میں لائے تاکہ دوسرے لوگ عملی طورپر اس کا اظہار کریں اور اس میں آپ کی فرمانبرداری کریں ۔ ایسے شخص سے یہ بات کیوں متصور ہوسکتی ہے کہ خود نہ کرے اور غیر کو کرنے کا حکم دے۔
امیر خسرو نے کیا خوب کہا ہے کہ جو واعظ اور نصیحت گو ایسی بات کی لوگوں کو نصیحت کرے کہ خود اس پر عامل نہ ہو تو خلق اسے شمار میں نہیں لاتی۔ ( سیرالاولیاء ص : ۳۲۳)
تربیت اور اصلاح کے ضمن میں صوفیاء کرام کے طریقے غیرمعمولی مؤثر ثابت ہوئے ہیں اور انھوں نے بے شمار بنداگان خدا کی رشد و ہدایت کا فریضہ سر انجام دیا ہے نیز تہذیبی اخلاق اور تہذیب نفس میں صوفیہ سے بہتر نتائج کوئی پیش نہیں کرسکے ۔ وہ درحقیقت انبیاء علیھم السلام کے وارث و جانشین رہے اور ان کی تعلیمات اور ملفوظات تاقیامت انسانیت کی رشد و ہدایت کے لئے مشعل راہ ہیں۔
حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر قدس سرہ (۵۶۹۔۶۶۴) سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ ہیں ۔ آپ نے سخت ترین ریاضت و مجاہدہ فرمایا ہے ۔ آپ کی تصنیفات میں آپ کے ملفوظات کے دو مجموعے ہیں ، راحت القلوب کو سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہ اور اسرار الاولیاء کو حضرت بدر اسحق علیہ الرحمہ نے مرتب کیا ہے ۔ راحت القلوب میں راہِ سلوک کی بنیادی تعلیمات ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : درویش کو چاہئے کہ چار باتیں اختیار کرے (۱) اپنی آنکھوں کو بند کرلے کہ خدا کے بندوں کے عیوب نہ دیکھ سکے (۲) کانوں کو بہرا کرلے کہ جو باتیں سننے کے لائق نہ ہوں ان کو نہ سن سکے (۳) زبان کو گونگی کرلے کہ جو باتیں کہنے کے لائق نہ ہوں ان کو نہ کہے (۴) پاؤں کو لنگڑا رکھے کہ جب اس کا نفس کسی غیرضروری یا ناجائز کام کی طرف لے جانا چاہے تو نہ جاسکے ، اگر یہ باتیں اسکو حاصل ہوگئیں تو وہ دریش ہے ورنہ وہ دروغ گو ہے ۔
راہ سلوک میں توبہ بنیادی شئی ہے ، حضرت بابا گنج شکرؒ نے توبہ کی چھ قسمیں بتائی ہیں : (۱) توبۂ دل : حسد ، ریاء ، لہو و لعب اور تمام نفسانی لذتوں اور شہوت سے صدق دل سے باز آنا ، اس سے دل کی آلائش دور ہوتی ہے جس کے بعد بندہ اور مولیٰ کا حجاب اُٹھ جاتا ہے۔
(۲) توبۂ زبان : ناشائستہ ، بے ہودہ اور ناروا کلمات زبان پر نہ لانا ، زبان صرف خداوند تعالیٰ کے ذکر اور تلاوت کلام پاک کے لئے وقف ہونی چاہئے ، عشق حقیقی میں وہی سالک ثابت قدم رہ سکتا ہے جس نے دل اور زبان کی توبہ سچائی سے کرلی ہو ۔ زبان کی توبہ کے بغیر صرف دل کی توبہ سے وہ انوار عشق کی تجلی نہیں دیکھ سکتا ، آنکھ ، کان ، ہاتھ اور نفس زبان ہی کے تابع ہیں ، اس لئے زبان کی توبہ سے یہ تینوں چیزیں بھی محفوظ رہتی ہیں۔
(۳) توبۂ چشم : حرام چیزوں کو نہ دیکھنا ، کسی کا عیب نہ دیکھنا۔ ظلم ہوتے ہوئے نہ دیکھنا ، سالک جب مشاہدۂ حق کرچکا ہو تو پھر اس کو دنیا کی کسی چیز پر نظر نہیں ڈالنی چاہئے ۔
(۴) توبۂ گوش : ذکر حق کے سوا کوئی اور چیز نہ سننا ۔
(۵) توبۂ دست : ناروا اور ناجائز چیزوں کو ہاتھ نہ لگانا ۔
(۶) توبۂ پا : حرام چیزوں کی طرف نہ جانا ۔
(۷) توبۂ نفس : ماکولات ، شہوات اور لذات سے باز آنا ۔
اس قسم کے علاوہ توبہ کی تین قسمیں اور ہیں (۱) توبۂ حال (۲)توبۂ ماضی (۳) توبۂ مستقبل ۔ حال کی توبہ گناہوں سے پشیمان اور نادم ہوکر ، باز آنا ہے ۔ ماضی کی توبہ اپنے دشمنوں کو خوش کرنا ہے ، اگر تائب نے کسی کا ایک درہم بھی غصب کرلیا ہو تو اس کو دس درہم واپس کرنا چاہئے ، اگر اس نے کسی کو برا کہا ہو تو اس کے پاس جاکر معافی مانگے اور اگر وہ مرگیا ہو تو معذرت کے بجائے اس کے نام سے غلام آزاد کرے اور اگر شراب پیتارہا ہو تو توبہ کے بعد خدا کے بندوں کو سرد اور لطیف پانی پلائے ۔ مستقبل کی توبہ یہ ہے کہ تائب آئندہ تمام گناہوں سے پرہیز کرنے کے لئے عہد کرے ۔
حضرت گنج شکر قدس سرہ نے راہِ سلوک میں دل کی صلاحیت پر زور دیا اور اس کو سلوک کی اصل کہا ہے اور یہ صلاحیت اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جو لقمۂ حرام سے پرہیز اور اہل دنیا سے اجتناب کرتا ہے، ایک جگہ حضرت یحییٰ معاذ رازی کا قول نقل کرکے فرمایاہے کہ حکمت اس کے دل میں قرار پاسکتی ہے جس کے دل میں دنیا کی حرص نہ ہو ، رشک و حسد نہ ہو اور شرف جاہ کی خواہش نہ ہو ۔