روپیہ کی قدر میںمسلسل گراوٹ

   

ہندوستانی روپئے کی شرح میں مسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ ایک امریکی ڈالر اب 82 روپئے کا ہوگیا ہے۔ روپئے کی قدر میں گراوٹ کے جو منفی اثرات ہیں وہ عام عوام پر مسلسل مرتب ہوتے جارہے ہیں۔عوام کی مشکلات میںاضافہ جاری ہے ۔ مرکزی حکومت اس مسئلہ پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ کوئی ردعمل ظاہر نہیںکیا جا رہا ہے اور نہ ہی روپئے کی قدر میں گراوٹ کاسلسلہ روکنے کوئی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ عوام پر جو بوجھ عائدہو رہا ہے اس پر مسلسل خاموشی اختیار کی جا رہی ہے ۔ ملک کے ٹی وی چینلس کا جہاں تک سوال ہے تو وہ بھی انتہائی تشویش کے اہم ترین مسئلہ پر کوئی مباحث کروانے ‘ عوام کو اس کے اثرات سے واقف کروانے یا پھر حکومت سے کوئی سوال کرنے اور وضاحت طلب کرنے کی بجائے پرانے راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ فرقہ وارانہ نوعیت کے متنازعہ اور حساس مسائل کو چھیڑتے ہوئے ان پر مباحث کئے جا رہے ہیں اور عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹائی جا رہی ہے ۔ جہاں کہیںکوئی مرکزی وزراء یا بی جے پی کے قائدین سے اس تعلق سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ اپنے ہی رنگ میںبات کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں روپئے کی قدر میں گراوٹ کو ملک کے وقار اور حکومت کی وقعت میں گراوٹ قرار دینے والی بی جے پی کے قائدین اب روپئے کی قدر میں گراوٹ کے فائدے گنانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جو ٹی وی چینلس سابقہ حکومتوں میں روپئے کی قدر میں گراوٹ پر تنقیدیں کیا کرتے تھے اب وہ حکومت سے سوال کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ اگر کہیں سے کوئی اپوزیشن کے قائدین اس تعلق سے مباحث میں کوئی تذکرہ کرتے ہیں تو فرقہ وارانہ مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے راست جواب دینے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ روپئے کی قدر میں گراوٹ کے باوجود حکومت یہ دعوے کرنے میں مصروف ہے کہ ہندوستان کی معیشت دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن گئی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے لیکن یہ اس وجہ سے ہوا ہے کہ برطانیہ میں پاونڈ کی قدر بھی کم ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے اس کی معیشت چھٹے نمبر پر چلی گئی ہے ۔
روپئے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ جاری رہے تو ہندوستان کیلئے بھی مشکل پیدا ہوگی۔ ہندوستانی معیشت جو پانچویں نمبرپر پہونچ گئی ہے اسے اپنا یہ موقف برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا ۔ ملک کے بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر پر ڈالر کے مہنگے ہونے کا اثر لازمی طور پر پڑسکتا ہے اور ہندوستان جو درآمدات کرتا ہے ان کا بوجھ بڑھ جائے گا اور حکومت خود بوجھ برداشت کرنے کی بجائے یہ بوجھ راست یا بالواسطہ طور پر عوام پر ہی منتقل کردے گی ۔ اس طرح پہلے ہی سے مہنگائی اور بیروزگاری سے پریشان عوام کی مشکلات میںمزید اضافہ کے اندیشے لاحق ہوجاتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے معاشی محاذ کو ایک طرح سے عوام کی توجہ اور نظروں سے اوجھل کیا جا رہا ہے ۔ حکومت خود بھی اپنے طورپر معیشت کے استحکام پر توجہ دینے تیار نہیں ہے یا پھر حکومت کے اقدامات کا مثبت اثر نہیں ہو پا رہا ہے ۔ ملک میںصرف چند مٹھی بھر کارپوریٹس کی دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ چند ہی برسوںمیںسینکڑوں مقام کی چھلانگ لگاتے ہوئے چند کارپوریٹس لاکھوںکروڑ روپئے کی دولت کے مالک بن گئے ہیں لیکن ملک کے عوام کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیںہے۔ عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان پر راست اور بالواسطہ محاص کا بوجھ عائد ہوتا جا رہا ہے ۔ عام استعمال کی اشیاء پر بھی جی ایس ٹی عائد کرتے ہوئے الگ ان کیلئے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں الگعوام کی پہونچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔
روپئے کی قدرمیں گراوٹ کو فوری توجہ کے ساتھ روکنے کی ضرورت ہے ۔ حکومتیں اپنے اقدامات اورپالیسیوںکے ذریعہ عوام پر بوجھ عائد کرتے ہوئے صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ اقدامات موثر نہیںکہے جاسکتے ۔ عوام پر بوجھ عائد کرنے کی بجائے انہیںراحت پہونچانے کیلئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو اپنی پالیسیوں اور اقدامات پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے روپیہ مستحکم ہوسکے ۔ ملک کی معیشت میں استحکام پیدا ہوسکے اور عوام کو جو مشکلات پیش آ رہی ہیں انہیں دور کرنے میں مدد مل سکے اور ملک میں مہنگائی کا جو عروج ہوا ہے وہ کم ہوسکے ۔