ریونت ریڈی کی ذمہ داریاں

   

تلنگانہ کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اے ریونت ریڈی آج حلف لیں گے ۔ ریونت ریڈی نے گذشتہ پانچ برسوںمیں سیاسی کایا پلٹ کی ایک بڑی مثال قائم کی ہے ۔ انہوں نے 2018 کے انتخابات میںشکست کھانے کے بعد مایوس ہونے کی بجائے ایک عزم و ارادہ کے ساتھ اپنے نئے سفر کا آغاز کیا اور آج وہ چیف منسٹر کی کرسی پر براجمان ہونے والے ہیں۔ انہوں نے 2019 میں پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی ۔ پھر وہ صدر پردیش کانگریس بنائے گئے اور دو سال کے عرصہ میں انہوں نے ریاست میں دم توڑتی کانگریس میں نئی جان ڈالنے میں کامیابی حاصل کی اور بات یہیں تک محدود نہیںرہی بلکہ انہوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی اور مسلسل جدوجہد کے ذریعہ ریاست میں کانگریس پارٹی کو اقتدار پر قابض کروانے میں اہم اورسرگرم رول ادا کیا ۔ اب جبکہ ریاست میں انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور کانگریس کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اے ریونت ریڈی آج حلف لینے والے ہیںایسے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کے چیف منسٹر کی کرسی ان کیلئے محض پھولوںکی سیج ثابت نہیں ہوگی ۔ ان کے سامنے کئی چیلنجس اور ذمہ داریاں ہیں اور ان سے سماج کے کئی طبقات کو امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کے سامنے روزگار کا مسئلہ ہے ‘ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا مسئلہ ہے ‘ کسانوں کو راحت پہونچانے کا مسئلہ ہے ‘ نوجوانوں کی خواہشات اور امنگوں کوپورا کرنے کا مسئلہ ہے ‘ سماج میں خواتین کو با عزت مقام دلانے کا مسئلہ ہے اور ساتھ ہی سماج کے مختلف طبقات سے انصاف کرنے کا بھی مسئلہ درپیش ہے ۔ کئی طبقات نے ان سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کو اقتدار پر فائز کرنے کیلئے ووٹ دیا تھا ۔ خاص طور پر تلنگانہ کے مسلمانوں کے بے دریغ مسائل ہیں جن کو پورا کرنا ریونت ریڈی کی اولین ذمہ داریوں میںشامل ہے ۔ ریاست کے مسلمانوں نے کانگریس کا بھرپور ساتھ دیا ہے ۔ سابقہ حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ جس طرح دوسرے درجہ کے شہری جیسا سلوک کیا گیا تھا اس نے مسلمانوںکو نالاں کردیا تھا ۔ اب یہ صورتحال بدلنی چاہئے ۔
ریاست میں مسلمانوں کے تحفظات کی برقراری اور ممکن ہوسکے تو اس میں اضافہ ‘ وقف جائیدادوں کے تحفظ اور وقف بورڈ کو جوڈیشیل اختیارات دینے ‘ وقف بورڈ کے کام کاج کو موثر اور بہتر بنانے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اقلیتی اداروں کو محض چند مٹھی بھر افراد کی باز آبادکاری تک محدود کرنے کی بجائے انہیں ریاست کے مسلمانوں کیلئے حقیقی طور پر متحرک اور فعال بنانے کی ضرورت ہے ۔ روزگار اور ملازمتوں میں تحفظات کو یقینی بنانا چاہئے ۔ اقلیتوں کیلئے بجٹ کا جو وعدہ کیا گیا ہے اسے پورا کیا جانا چاہئے ۔ اقلیتوں میں بھی دیگر ابنائے وطن کی طرح ریاست کے اصل دھارے میں شمولیت کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ نہیں الگ تھلگ کرکے نہیں دیکھا جانا چاہئے ۔ اقلیتوں کی تعلیمی ‘ سماجی اور معاشی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے جامع منصوبے بنائے جانے چاہئیں۔ ان منصوبوںپر عمل آوری کو یقینی بنانا ہوگا اور ترقی کے ثمرات میں انہیں حصہ دار بنانا چاہئے ۔ اس کے علاوہ ریاست کے دیگر طبقات کو بھی اعتماد میں لینے کی ضر ورت ہے ۔ کسان برادری پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں ضرورت کے مطابق مکمل برقی سربراہ کی جانی چاہئے ۔ ان کی فصلوں کی قیمتوں کاواجبی تعین کیا جانا چاہئے ۔ اس بات کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے کہ کوئی کسان قرض کے بوجھ سے تنگ آکر یا مجبوری کی حالت میںخودکشی کرنے نہ پائے ۔ خواتین اور لڑکیوں کی ترقی کو یقینی بنانے کیلے بھی جامع اور موثر اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔
ریاست پر قرض کا ایک بھاری بوجھ عائد ہوا ہے ۔ ریاست کے مالیاتی وسائل میں اضافہ کرتے ہوئے اس بوجھ کو ممکنہ حد تک کم کرنے کیلئے بھی خصوصی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ ریاست کی معیشت کو مستحکم کئے بغیر جو وعدے عوام سے کئے گئے ہیں ان کی تکمیل ممکن نہیں ہوگی ۔ عوام کو جو سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے ان سے پہلو تہی نہیں کی جانی چاہئے ۔ انتخابی وعدوں کی تکمیل میں تاخیر سے بھی گریز کیاجانا چاہئے کیونکہ عوام نے ایک بھروسہ اور امید کے ساتھ کانگریس کو ووٹ دے کر اقتدار بخشا ہے اور عوام کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترنا حکومت اور چیف منسٹر کی اولین ذمہ داری ہوگی ۔