ریٹیل افراط زر میں پھر اضافہ

   

لٹ جاتی ہیں تمام گلستاں کی رونقیں
آتی ہے کون جانے دبے پاؤں کب خزاں
دو ماہ تک معمولی سی کمی کے بعد ہندوستان بھر میںریٹیل افراط زر کی شرح میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے اور وہ تین ماہ میں سب سے زیادہ ہو کر 6.52 فیصد تک پہونچ گیا ہے ۔ یہ اضافہ عکاسی کرتا ہے کہ ہندوستانی بازاروں میں مہنگائی پھر سے بڑھنے لگی ہے ۔ ویسے تو گذشتہ آٹھ برس میںمہنگائی میںاضافہ کا سلسلہ کسی رکاوٹ کے بغیر جاری ہے ۔ اشیائے ضر وریہ کی قیمتوں میں بھی من مانی اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ کوئی بھی اس مہنگائی کو روکنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ مرکزی حکومت اپنے ہی الگ سے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے سب کچھ ٹھیک ہے کا دعوی کرتے ہوئے بری الذمہ ہوجاتی ہے ۔ عوام مسلسل مہنگائی کی مار سہنے کیلئے چھوڑ دئے گئے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کا حصول بھی عام آدمی کیلئے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔گذشتہ دو مہینوں میں ترکاریوں کی قیمتوں میں معمولی سی کمی آئی تھی ۔ عوام کو اس کا احساس ہوتا اس سے قبل ہی ان قیمتوں میں دوبارہ اضافہ شروع ہوگیا ہے ۔ ترکاری کے علاوہ دوسری تمام روز مرہ کے استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں کوئی گراوٹ نہیں آئی ہے ۔ ہر شئے عوام کی پہونچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے ۔ عوام کی آمدنی میں کمی ہو رہی ہے ۔ جی ایس ٹی کے علاوہ کئی طرح کے ٹیکس وصول کرتے ہوئے عوام پر بوجھ میں اضافہ کیا جا رہا ہے تو مہنگائی کے ذریعہ الگ سے ان کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔ سرکاری خزانہ مسلسل بھرا جا رہا ہے لیکن اس خزانہ سے عام آدمی کو کوئی راحت نہیں مل رہی ہے بلکہ کارپوریٹس کو قرض دئے جا رہے ہیں اور کارپوریٹس یہ قرض ہضم کرتے جا رہے ہیں۔ جو لوگ قرض واپس نہیں کر رہے ہیں ان سے قرض وصول کرنے کی مہم شروع کرنے کی بجائے عوام پر عائد ہونے والے محصول اور ٹیکس کی وصولی کیلئے ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ پٹرولیم اشیا کی قیمتوں میں جس قدر اضافہ کیا گیا تھا وہ اپنی حدوں کو پہونچ چکا ہے ۔ حکومت ان اشیا پر قیمتوں کو تو مستحکم رکھتی جا رہی ہے لیکن دوسری اشیا کی قیمتوں پر قابو پانے کیلئے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔ ہر شعبہ میں مہنگائی کا سامنا کرنے والے عوام اب دو وقت کی روٹی کے سواء کسی اور پہلو پر غور کرنے کے موقف میں بھی نہیں رہ گئے ہیں۔
مرکزی حکومت اپنے بجٹ میں ہو یا پھر حکومت کے ذمہ داران اور وزراء ہوں ہر تقریب میں حکومت کی ستائش کرتے نہیں تھکتے ۔ حکومت کے اقدامات کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ ملک کی معیشت کے تیزی سے ترقی کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر ہندوستان کی مقبولیت اورمعقولیت میں اضافہ کی بات کی جاتی ہے لیکن یہ تذکرہ نہیں کیا جاتا کہ بھوک کے انڈیکس میں ہندوستان اور بھی پیچھے چلا گیا ہے ۔ فی کس آمدنی کے معاملے میں ہندوستان کو بنگلہ دیش نے پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے ممالک کی معاشی رفتار ہندوستان سے بھی بہتر ہوتی جا رہی ہے ۔ ملک اگر واقعی معاشی میدان میں ترقی کر رہا ہے تو پھر اس کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہونچ رہے ہیں۔ حکومت کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کی ترقی کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد بھوکے پیٹ سونے کیلئے مجبور کیوں ہے ۔ عوام کو مہنگائی سے راحت کیوں نہیں مل رہی ہے ۔ واقعی اگر ترقی ہو رہی ہے اور حکومت کے دعوے صرف اعداد و شمار کا الٹ پھیر نہیں ہیں تو پھر عوام کو مشکلات کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے ۔ کیوں انہیں کسی طرح کی راحت نہیں مل رہی ہے ۔ کم از کم اشیائے ضروریہ اور ادویات کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں کی جا رہی ہے ۔ حکومت اس مسئلہ پر لا تعلق بنی ہوئی کیوں ہے ؟ ۔ وزیر فینانس کیوں عوام کی تکالیف کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں ؟ ۔ حکومت کے دعوے اپنی جگہ لیکن افراط زر کی شرح میںاضافہ الگ ہی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے ۔
سیاسی شعبدہ بازی کوا گر حکومت یا حکمرانی کا بھی حصہ بنادیا جائے تو اس سے عوام کو راحت ملنے کی بجائے ان کی مشکلات اور پریشانیوںمیںاضافہ ہی ہوتا ہے ۔ یہی کچھ ہندوستان میںشائد ہو رہا ہے ۔ حکومت اعداد و شمار کے ذریعہ بلند بانگ دعوے تو کرتی جا رہی ہے لیکن عوام کے مسائل اور پریشانیوں میںکوئی کمی نہیں آ رہی ہے ۔ ترکاریاں ہوں یا خوردنی تیل ہو ‘ پکوان گیس ہو یا پھر دال چاول اور آٹے کے بھاؤ ہوں سبھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ وزیر فینانس شائد ان اشیا کا استعمال تو کرتی ہونگی تو انہیں بھی اس کا اندازہ ہونا چاہئے اور انہیں عوام کو مہنگائی سے راحت دلانے کیلئے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔