سائیکلون پر سیاست

   

سائیکلون پر سیاست
ہندوستان ہو یا پھر ساری دنیا میں جب کبھی کوئی بحران کی کیفیت پیدا ہوتی ہے یا پھر کوئی آفت آتی ہے تو سیاست اور اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسانی ہمدردی اور یگانگت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ متاثرہ عوام کی اور ملکوں کی مدد کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ یہی وجہ رہی ہے کہ جب ہندوستان میں کورونا کی دوسری لہر نے تباہی مچائی اور قیامت صغری جیسے حالات پیدا کردئے تو ہندوستان سے اختلافات رکھنے والے ممالک نے بھی اس کی مدد کیلئے دست تعاون دراز کیا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان نے بعض ممالک کی مدد قبول کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن انسانی ہمدردی ایسے مواقع پر غالب آتی ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ملک میں اب ہر مسئلہ پر سیاست کی جائے گی اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا کوئی موقع گنوایا نہیںجائیگا ۔ یہی صورتحال کل اس وقت پیدا ہوئی جب وزیراعظم نریندر مودی نے طوفان یاس سے متاثرہ ریاست مغربی بنگال کا دورہ کیا ۔ ان کے دورہ کے موقع پر جو واقعات پیش آئے ہیں اور ان کو بعد میں جس انداز سے میڈیا گوشوں سے ایک مخصوص ذہن و فکر کے ساتھ پیش کیا گیا وہ افسوس ناک تھا ۔ مغربی بنگال میںحالانکہ انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ ممتابنرجی نے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ عوام کی تائید سے وہ تیسری مرتبہ چیف منسٹر بن گئیں۔ بی جے پی ساری طاقت جھونکنے کے باوجود بنگال میں کامیابی حاصل نہیںکرسکی ۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی جانب سے انا کا مسئلہ بنا کر مہم چلانے کے باوجود اسے عوام کی تائید حاصل نہیں ہوسکی ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اس شکست کو ابھی فراموش نہیں کرپائی ہے اور بنگال کے عوام کے فیصلے کا احترام کرنے اور ممتابنرجی کے انتخاب کو تسلیم کرنے کی بجائے مرکز کی بالادستی کو یقینی بنانے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نارادا اسکام کے نام پر ریاست کے چار وزراء اور دوسرے دو ترنمول قائدین کو اچانک ہی گرفتار کیا گیا تھا اسی کیس میں ملزم بی جے پی کے قائدین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ حالانکہ ایک ہی ایف آئی آر میں ان کے نام بھی شامل ہیں ۔
اب جبکہ مغربی بنگال میں طوفان نے تباہی مچائی ہے ۔ جان و مال کا بھاری نقصان ہوا ہے اور مرکزی حکومت کو آگے آ کر فراخدلانہ مدد کرنے کی ضـرورت ہے وہاں سیاست کی جا رہی ہے ۔ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نے خود ریاست کا دورہ کرنے اور نقصانات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ وہ آئے اور جب ائرپورٹ پر چیف منسٹر ممتابنرجی پہونچیں تو صرف ان سے ملاقات کرنے کی بجائے وزیر اعظم نے پہلے ہی ریاستی گورنر اور بی جے پی کے قائدین کے ساتھ اجلاس شروع کردیا ۔ ممتابنرجی کو اجلاس کے مقام پر جانے سے روکا گیا ۔ چیف منسٹر کو کسی اور مقام کا دورہ بھی کرنا تھا ۔ وہ وزیر اعظم سے جلد بازی میں 15 منٹ ملاقات کرکے اور طوفان کے نقصانات پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے روانہ ہوگئیں۔ پھر اچانک ہی مخصوص میڈیا گوشوں سے یہ مہم شروع کردی گئی کہ ممتابنرجی نے وزیر اعظم سے عمدا ملاقات نہیں کی ہے ۔ ممتابنرجی کا تاہم دعوی ہے کہ وہ وزیر اعظم سے اجازت لینے کے بعد ہی سرکاری مصروفیات پر روانہ ہوئی تھیں۔ بی جے پی اور سرکاری ذرائع کی جانب سے اس حقیقت کو پوشیدہ رکھتے ہوئے ممتابنرجی کو نشانہ بنانے کاسلسلہ شروع کردیا گیا ۔ اس پر وضاحت کرنے کی بجائے وزیر اعظم نے نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ دہلی واپسی کے بعد مغربی بنگال کے چیف سکریٹری کی خدمات ریاست سے واپس لے لی اور انہیں اندرون تین دن مرکزی حکومت کو رپورٹ کرنے کی ہدایت جاری کردی ۔ یہ ایک طرح سے انتقامی کارروائی ہوسکتی ہے ۔
ممتابنرجی نے آج ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے تمام واقعات اور حالات کی وضاحت کی ہے ۔ اس پر بھی مرکز کو اپنی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان ایک وفاقی طرز حکمرانی والا ملک ہے ۔ ریاستی حکومتیں بھی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتی ہیں اور مرکزی حکومت کی اپنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ریاستوں کو مرکزی حکومت کی بالا دستی تسلیم کرنی ہوتی ہے لیکن مرکزی حکومت کو بھی ریاستی حکومتوں کی اہمیت کو سمجھنے کی اور انہیں عزت و احترام دینے کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ دونوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے ۔ سیاسی اختلافات کو عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں رکاوٹ بننے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ یہ ہندوستانی وفاقی نظام حکومت کے مغائر عمل ہے ۔

خانگی دواخانے اور من مانیاں
تلنگانہ میں ریاستی حکومت کے سخت گیر احکام کے باوجود خانگی دواخانوں میں من مانیاں جاری ہیں۔ معمولی ادویات دیتے ہوئے لاکھوں روپئے کے بل اینٹھے جا رہے ہیں۔ علاج میں دواخانوں کی جانب سے کوتاہی اور غلطیوں کا بھی انکشاف ہونے لگا ہے اور مریضوں کی جانیں بھی جا رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے صرف نوٹس کی اجرائی پر اکتفاء کیا جا رہا ہے یا پھر چند ایک دواخانوں کو کورونا کے علاج کے لائسنس سے دستبرداری اختیار کی جا رہی ہے ۔ یہ کارروائیاں کافی نہیں ہیں ۔ حکومت کی ہدایات کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔ حکومت عوام کو راحت پہونچانا چاہتی ہے لیکن خانگی دواخانے بحران کے وقت میں عام حالات سے زیادہ نفع خوری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ریاستی حکومت ان دواخانوں کو اپنے کنٹرول میں لے اور ایک مقررہ قیمت پر عوام کو علاج کی سہولیات فراہم کرے ۔ اسی طرح سے عوام سے لوٹ مار کا سلسلہ روکا جاسکتا ہے ۔ محض نوٹس کی اجرائی یا بیان بازیوں سے استحصال رکنے والا نہیں ہے ۔