’’سرسید اور عشقِ رسولؐ‘‘

   

ڈاکٹر قمرحسین انصاری
حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک تم مجھے اپنی جان ، اپنے والدین ، بچوں، مال بلکہ تمام انسانیت سے زیادہ نہ چاہو ‘‘ ۔ ( صحیح بخاری )
اﷲ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں اُمتِ محمدیؐ میں پیدا کیا ۔ نبی کریم ﷺ سے محبت ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے ۔ رسول اﷲ سے محبت کے تین تقاضے ہیں (۱) ذاتِ محمدیؐ سے دل و جان سے محبت اور آپ ﷺکے معجزات اور عظمت کا احترام و اعتقاد ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’نبیؐ مومنوں پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں ‘’ (سورۃ الاحزاب) (۲) آپ ﷺ کے قول سے محبت (۳) آپﷺ کے عمل سے محبت اور اُس کی پیروی ۔ ان تینوں تقاضوں کے بغیر عشقِ رسول ﷺ کا دعویٰ کھوکھلا ہے ۔
سرسید احمد خاں سچے عاشق رسولؐ تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے جس حدیث کا مفہوم آنحضرتؐ کی شان کے منافی ہو وہ میرے نزدیک یقینی طورپر موضوع مفتریٰ ہے ۔ وہ ایسے زمانے میں (۱۹ ویں صدی ) میں پیدا ہوئے جب انگریزوں کے اخباروں اور رسالوں میں اسلام کی تعلیمات پر اعتراضات کئے جاتے تھے اور بانی اسلام ﷺ کی سیرتِ طیبہ پر نکتہ چینیاں کی جاتی تھیں ، جس سے اسلام سے چند ناواقف مسلمان بھی متاثر ہوجاتے تھے ۔
اسی سلسلہ کی ایک کوشش سنہ ۱۸۶۵؁ ء میں آگرہ اور اودھ کے گورنر ولیم میور (William Mayur) نے اُس کی ایک کتاب ’’لائف آف محمد اینڈ ہسٹری آف اسلام ٹو دی ایرا آف ہجری‘‘ چار جلدوں میں لکھ کر شائع کی ۔ سرسید بہت بے چین اور بے قرار ہوئے ۔ اُن کا ایمان تھا کہ ایک مومن کے لئے یہ کیسے گوارہ ہوسکتا ہے کہ کوئی نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی ہو اور وہ خاموش رہے اس لئے سرسید نے اس گستاخانہ کتاب کا جواب اپنی کتاب ’’خطباتِ احمدیہ فی العرب و السیرۃ العربیۃ ‘‘ میں صحیح اسناد اور حوالوں کے ساتھ حضور اکرم ﷺ پر ، آپ ﷺ کی تعلیمات پر ، اُسوۂ حسنہ پر ، آپ ﷺ کے کارناموں اور معجزات پر کئے گئے اعتراضات پر مفصل اور مدلل طورپر دیا اور اپنے سچے عاشق رسولؐ ہونے کا ثبوت دیا ۔
اس کتاب کا ایک ایک صفحہ سرسید کی علمی بصیرتوں اور محبت نبویؐ سے روشن ہے ۔ پروفیسر اصغر عباس کے مطابق اس ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ کا انگریزی ترجمہ اپنے بیٹے سید محمود سے ’’سیریز آف دی لائف آف محمدؐ ‘‘ کے عنوان سے سنہ ۱۸۷۰؁ء میں لندن سے شائع کروایا ۔ یہ شاید انگریزی میں پہلی کتاب ہے جسے کسی مسلمان نے رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ پر لکھی ۔ خطبات احمدیہ ‘‘ بارہ خطبات کا مجموعہ ہے جس میں سوانح محمدؐ ، عرب کا جغرافیہ ، انجیل کی بشارتیں ، معراج النبیؐ پر قرآن و حدیث کی روشنی میں عالمانہ بحث کی گئی ہے ۔
جب یہ کتاب لندن سے چھپ کر شائع ہوئی تو وہاں کے ایک انگریزی اخبار نے عیسائیوں کو خبردار کیا کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے اُنھیں کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی جس میں اُس نے دکھایا ہے کہ اسلام اور بانی اسلام اُن داغوں سے پاک ہے جو عیسائی اُن کے خوش نما چہرہ پر لگاتے ہیں ! الحمدﷲ ! سرسید کی پوری زندگی عشقِ نبویؐ سے معمور ہے ۔ اُن کی تصنیفی زندگی کا آغاز ’’جلاء القلوب بذکرالمحبوب ‘‘ سے ہوا اور اپنے آخری وقت میں ’’اُمہات المؤمنین‘‘ کی تصنیف میں مشغول رہے ۔ سبحان اﷲ !
سرسید کی تفسیر القرآن ’’ھوی الھدیٰ و الفرقان‘‘ جو سات جلدوں پر مشتمل ہے سے ایک علمی انقلاب برپا ہوا جس نے مذہب اور سائنس کے درمیان خلیج کو ختم کیا ۔ اس تفسیر کی ابتداء سنہ ۱۸۷۷؁ء میں ہوئی جو سات جلدوں پر مشتمل ہے اور سولہویں پارہ کے بیسویں سورۂ طہٰ پر ختم ہوئی ۔ اُنھیں اپنی تفسیر مکمل کرنے اور نظرثانی کرنے کا موقع نہ ملا پھر بھی اسے سرسید کے عظیم کارنامۂ حیات سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ’’ترجمان القرآن ‘‘ ، مولانا عبدالماجد دریا بانی نے اپنی ’’تفسیر ماجدی‘‘ اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی تفسیر ’’تفہیم القرآن ‘‘ میں تفسیر سرسید سے استفادہ کیا۔
سرسید کی کوشش تھی کہ اسلام کو ایک سائنسی نظریہ سے پیش کریں۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ ’’اسلام ہی فطرت ہے ۔ فطرت ہی اسلام ہے ‘‘۔ وہ احادیث نبوی الشریف کو قرآن الکریم کے بعد دوسرا بڑا ’’دستور العمل ‘‘ قرار دیتے تھے ۔ سرسید پہلے مسلمان تھے جس نے انجیل کی تفسیر بھی لکھی ۔ مولانا شبلی نعمانی نے باوجود نظریاتی اختلاف کے سرسید کے کارناموں کا یوں اعتراف کیا ’’ایک شخص بھی نہیں جو سرسید کے بار احسان سے گردن اُٹھاسکتا ہے ۔ بعض اُن کے دامنِ تربیت میں پلے، بعضوں نے دور سے فیض اُٹھایا اور بعض نے مدعیانہ اپنا الگ راستہ نکالا۔ تاہم سرسید کے فیض پذیری سے بالکل آزاد کیونکر رہ سکتے ہیں‘‘۔ ( مقالات شبلیؒ)
دیتا رہوں گا روشنی بجھنے کے بعد بھی
میں بزم فکر و فن کا وہ تنہا چراغ ہوں
مولانا شبلی نعمانی کا خیال تھا کہ صحیح اسلامی عقائد اور اخلاق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نئے زمانے کی صرف مفید باتوں کو قبول کیا جائے ۔ سرسید کے نزدیک مسلمانوں کی موجودہ بیماریوں کا یہ علاج تھا کہ مسلمان مذہب کے سوا ہر چیز میں انگریز ہوجائیں۔ اس اختلاف کے باوجود مولانا شبلیؒ نے سرسید کے تعمیری کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جن کو اپنی فکر کے مطابق اُمت مسلمہ کے لئے مفید سمجھا ۔ یوں کہے کہ سرید اور مولانا شبلیؒابھی بھی زندہ ہیں جن کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور دارالمصنفین کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ دونوں نے قوم کی بھلائی میں اپنی اپنی اجتہادی فکر کا استعمال کیا ۔ شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالیؔ سرسید کو ’’امامِ وقت ‘‘ تسلیم کرتے ہیں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں ’’اُن کی بعض باتوں پر الہامی ہونے کا گمان ہوتا ہے ‘‘ ۔
سرسید (۱۹ ویں صدی ) اور علامہ اقبال (۲۰ ویں صدی ) میں تقریباً ساٹھ سال کا فرق تھا لیکن دونوں کے مقاصد اور فکر و نظر بڑی حد تک ایک ہی تھے ۔ سرسید باوجود کئی مشکلوں اور رکاوٹوں کے اپنے تعلیمی اجتہادی تحریک میں کامیاب اور مصلح قوم بن کر اُٹھے ۔