سروے مشنری بھی سرگرم

   

جذبۂ جنوں آخر اپنا رنگ لائے گا
منزلوں کی جانب تو چل پڑے ہیں دیوانے
انتخابات میں سیاسی جماعتوںاور امیدواروں کی جانب سے ہر طرح کے حربے اختیار کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ عوام کو گمراہ کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ انہیںہتھیلی میںجنت دکھائی جاتی ہے ۔ ناممکن جیسے وعدے کئے جاتے ہیں اور بعد میں ان وعدوںکو جملے قرار دے کر بری الذمہ ہوا جاتا ہے ۔ تاہم ہندوستان میں کئی طرح کی مشنریز ہوگئی ہیں جو انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ کچھ ادارے ہیںجو انتخابات میںسروے کا کام کرتے ہیں۔ یہ اشارے ملنے لگے ہیں کہ اب یہ ادارے بھی غیر جانبدار نہیں رہے اور نہ ہی یہ لوگ دیانتداری کے ساتھ اپنا کام کر رہے ہیں۔ یہ شکوک و شبہات تقویت پانے لگے ہیں کہ یہ ادارے بھی اقتدار کے گلیاروں میں جگہ بنائے رکھنے کیلئے سرکاری اشاروں پر کام کرنے لگے ہیں۔ ملک کی برسر اقتدار جماعت ملک کے ہر طرح کے میڈیا پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے ۔ ملک میں سینکڑوں چینلس ایسے ہوگئے ہیں جو حکومت کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ان چینلس کو کارپوریٹ اداروں نے خرید لیا ہے اور اب وہ حکومت کی تائیدو حمایت میں سرگرم ہیں اور اس کے بدلے میںحکومت سے انہیں انعامات بھی ملنے لگے ہیں۔ اب جبکہ ملک میںلوک سبھا انتخابات کا موسم ہے اور انتخابی مہم بتدریج شدت اختیار کرنے لگے ہے تو یہ سروے ادارے بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ یہ ادارے بھی ایسا لگتا ہے کہ عوام کے سامنے حقیقی صورتحال پیش کرنے اور ملک کو عوام کی نبض سے واقف کروانے کی بجائے حکومت اور برسر اقتدار پارٹی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششوں کا سرگرم حصہ بن گئے ہیں۔ یہ ادارے بھی دیانتدارانہ صحافت اور سروے کو چھوڑ کر تلوے چاٹنے جیسے کام کرنے لگے ہیں۔ اب نت نئے سرویز پیش کئے جانے شروع ہوچکے ہیںجن میں عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جا رہی ہے کہ اس بار بھی انتخابات میںبی جے پی کو ہی اپوزیشن جماعتوں پر غلبہ حاصل ہونے والا ہے ۔ بی جے پی کی کامیابی کی تشہیر ابھی سے ان اداروں کے ذریعہ شروع کرتے ہوئے عوام کے ذہنوںپر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بی جے پی کیلئے حالات بالکل بھی ویسے نہیں ہیں جس طرح کے حالات کا دعوی کیا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ہر معاملے میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہے اور ہر حربہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔
بی جے پی کے قائدین مسلسل یہ دعوی کر رہے ہیں کہ اس بار پارٹی دو تہائی اکثریت حاصل کرے گی اور این ڈی اے اتحاد چار سو پارلیمانی نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گا ۔ یہ بھی 2004 کی انڈیا شائننگ مہم جیسی صورتحال دکھائی دے رہی ہے ۔ اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی نے2004 میںانڈیا شائننگ مہم چلاتے ہوئے عوام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی لیکن انہیںنتائج میں ناکامی ہاتھ آئی تھی ۔ اس بار حالات پیچیدہ ضرور نظر آ رہے ہیں لیکن جس طرح بی جے پی نے ہر گوشے پر اپنا تسلط جماتے ہوئے عوام کے ذہنوں پر اثرانداز ہونے کی کوششیں شروع کی ہیں اس سے بی جے پی کی بوکھلاہٹ اور مشکلات کا پتہ چلتا ہے ۔ بی جے پی آج ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے لیڈر کو اپنے ساتھ ملانے کا سلسلہ شروع کرچکی ہے ۔ کسی کو لالچ دے کر یا کسی اور طریقہ سے اپنے ساتھ لا کھڑا کرنے میں پارٹی مہارت رکھتی ہے ۔ ہر چھوٹی جماعت کے دروازے تک پہونچ کر اس کی تائید و حمایت حاصل کی جا رہی ہے ۔ کئی گوشوں سے باضابطہ تشہیر اور مہم شروع کردی گئی ہے ۔ ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ ہر گوشے سے عوام کے ذہنوں میںیہ بات بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بی جے پی ہی بہر صورت انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی ۔ یہ پارٹی کی بوکھلاہٹ کا ثبوت کہا جاسکتا ہے کیونکہ قبل از وقت کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹنا بھی شکست کے خوف کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہی صورتحال اب بی جے پی کی ہوگئی ہے ۔
مختلف اداروں کے ذریعہ سروے کرواتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی مہم شروع ہوچکی ہے اور آئندہ وقتوں میں یہ مزید شدت اختیار کرسکتی ہے ۔ اس میںمزید تیزی پیدا ہوسکتی ہے ۔ جو ادارے سروے کر رہے ہیں ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پوری پیشہ ورانہ دیانت اور غیرجانبداری کے ساتھ اپنا کام انجام دیں۔ حقیقی صورتحال سے عوام کو واقف کروایا جائے ۔ ان کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی جائے ۔ انہیں حالات کی سنگینی سے واقف کروایا جائے اور پھر انتخابی عمل کے تعلق سے ان کی رائے حاصل کرتے ہوئے اس سے سارے ملک کوواقف کروایا جائے ۔ محض اقتدار کی چاپلوسی کرتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کرنا ملک ‘ انتخابی عمل اور جمہوریت کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
مشرق وسطی کے حالات
مشرق وسطی میں صورتحال تیزی کے ساتھ کشیدہ ہوتی جا رہی ہے اور ایک بڑی جنگ کے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ اسرائیل سارے علاقہ میں دہشت کا باعث بنا ہوا ہے ۔ غزہ پر انسانیت کو شرمسار کردینے والی بمباری اور بے تحاشہ تباہی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اب اس تنازعہ کو مزید وسعت دیتے ہوئے سارے مشرق وسطی اور خلیج فارس کے علاقہ کو جنگ میں جھونک دینا چاہتا ہے ۔ ساری دنیا نے غزہ میں تباہ کن بمباری کے باوجود لب کشائی سے گریز کیا تھا ۔ اسی خاموشی کے نتیجہ میں صیہونی اسرائیلی افواج کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور وہ لگاتار جنگی جرائم کا مرتکب ہوتا جا رہا ہے ۔ دنیا کی بے حسی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ کوئی جنگ بندی پر زور دینے تک کیلئے تیار نہیں ہے ۔اسی وجہ سے اسرائیل نے اب سارے علاقہ ہی کو جنگ میں جھونک دینے کا منصوبہ تیار کیا ہے اور اس نے اسی وجہ سے شام میںایرانی جرنیلوں کو قتل کردیا ۔ اب ایران جوابی کارروائی کی دھمکیاں دے رہا ہے جس سے سارے علاقہ کی صورتحال انتہائی دھماکو اور سنگین ہوتی چلی گئی ہے ۔ کسی بھی وقت وہاں ایک بڑی جنگ کے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ حالانکہ جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی ہے لیکن اگر یہ جنگ شروع ہوتی ہے تو اس کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہونگے ۔ مشرق وسطی اور خلیج فارس دنیا کے بے شمار ممالک کو تیل سربراہ کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ساری دنیا میں ایک طرح کا استحکام پایا جاتا ہے ۔ اگر اسی علاقہ میں جنگ شروع ہوجائے تو پھر ساری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہونگے اور تیل کی سپلائی متاثر ہوسکتی ہے ۔ اقوام متحدہ کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ محض کٹھ پتلی بنے رہنے کی بجائے اسرائیل پر اثر انداز ہوتے ہوئے علاقہ کو جنگ سے محفوظ رکھنے اقدامات کرے ۔