سرکاری کارروائی کا سیاسی استعمال

   

کیا اکڑنا کسی سے دنیا میں
یہ تو کمزور کی نشانی ہے
سرکاری کارروائی کا سیاسی استعمال
وزیر اعظم نریندر مودی ایسا لگتا ہے کہ پوری طرح سے انتخابی مہم میں خود کو ڈھال چکے ہیں۔ ان کے بیشتر پراجیکٹس کا افتتاح اور اس موقع پر ہونے والی تقاریر کو بھی ملک کی بعض ریاستوں میں انتخابی مہم کو ذہن میں رکھتے ہوئے قطعیت دی گئی ہے ۔ وہ ہریانہ میں پراجیکٹس کا آغاز کر رہے ہیں تو دوسرے دن جھارکھنڈ میں پراجیکٹس کے افتتاح کے موقع پر تقاریر میں مصروف ہیں ۔ پھر وہ مہاراشٹرا کے دورے بھی تواتر سے کرنے لگے ہیں۔ یہ ایسی ریاستیں ہیں جہاںاسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور مودی ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے پروگرامس کو قطعیت دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم ان دوروں کے موقع پر جو تقاریر کر رہے ہیں وہ در اصل سرکاری کارروائیوں کا سیاسی استعمال ہے ۔ وزیر اعظم نے کل جھارکھنڈ میں کچھ پراجیکٹس کا افتتاح کیا اور انہوں نے اپنی تقریر میں کسی کا نام لئے بغیر کانگریس قائدین کے خلاف ہونے والی ای ڈی وغیرہ کی کارروائیوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ حکومت کی کوششوں سے کچھ لوگ پہلے ہی جیل جاچکے ہیں۔ مودی نے ایک طرح سے اپوزیشن کو کھلے عام انتباہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ تو صرف آغاز ہے اور ابھی ساری فلم باقی ہے ۔ سرکاری طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے کرپشن اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے جو اقدامات کئے ہیں وہ صرف ابتدائی نوعیت کے ہیں اور مزید ایسی کارروائیاں کی جائیں گی تاہم اس جملے کے بین السطور میں یقینی طور پر اپوزیشن کیلئے انتباہ دکھائی دیتا ہے ۔ یہ ایک طرح سے اپوزیشن اور اس کے قائدین کو دھمکانے کی کوشش ہے ۔ علاوہ ازیں یہ الزامات بھی مودی کی تقریر سے تقویت پاتے ہیں کہ حکومت سرکاری ایجنسیوں کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہی ہے اور انہیں خوف زدہ کیا جا رہا ہے ۔ حکومت مسلسل تردید کرتی ہے کہ ای ڈی یا سی بی آئی کی کارروائی میں حکومت کا کوئی رول نہیں ہے اور تمام معاملات میں قانون اپنا کام کر رہا ہے ۔ الزامات کی نوعیت سے قطع نظر ہر معاملہ میں قانون کو ہی اپنا کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔ تاہم ایسی کارروائیوں کے سیاسی تذکرے نہیں ہونے چاہئیں۔
یہ حقیقت ہے کہ حکومت اور بی جے پی ہر کام کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپوزیشن کو نیچا دکھانے یا تنقیدوں کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے ۔ وزیر اعظم اپنی تقاریر کے ذریعہ سرکاری کارروائیوں کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ ایسے معاملات پر تفصیلی اظہار خیال کر رہے ہیں جو شخصی نوعیت کے ہیں۔ آج ملک میں ایسی صورتحال ہے کہ معیشت مسلسل گراوٹ کا شکار ہوتی جار ہی ہے ۔ معاشی سست روی کے اندیشوں پر کئی گوشوں سے تنقیدیں کی جا رہی ہیں۔ ماہرین بھی بارہا حکومت کو اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معاشی نظام میں نئی اور از سر نو اصلاحات کی وکالت بھی کی جا رہی ہے ۔ عوام کو درپیش ہونے والی مشکلات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔ مختلف شعبوں میں پیدا ہونے والی سست روی مسلسل سامنے آنے لگی ہے ۔ جملہ گھریلو پیداوار کی شرح گھٹتی جارہی ہے ۔ مستقبل قریب میں بھی اس میں بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ روزگار کی صورتحال بھی ابتر ہے ۔ نئی ملازمتیں پیدا نہیں ہو رہی ہیں اور موجودہ ملازمتوں میں مسلسل تخفیف کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ ان مسائل پر وزیر اعظم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اور انہیں عوام کے سامنے حکومت کے منصوبوں کو پیش کرنا چاہئے اور یہ تیقن دینا چاہئے کہ صورتحال کی ابتری کو حکومت نے محسوس کیا ہے اور اس سے نمٹا جائیگا ۔
سرکاری اعداد و شمار کی حقیقت کے باوجود حکومت اور برسر اقتدار پارٹی کے حلقوں کی جانب سے اپنی ہی دھن میں تبصرے اور بیان بازیاں کی جا رہی ہیں اور معیشت کی سنگینی سے صرف نظر کیا جا رہا ہے ۔ دیگر نمائندوں کے علاوہ خود وزیر اعظم بھی اس طرح سنجیدگی سے غور کرتے یا اس کا جائزہ لیتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ سرکاری ایجنسیوں کے کام کاج کا سہرا پنے سر باندھنے اور اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے وزیر اعظم کو اور حکومت کے تمام نمائندوں کو چاہئے کہ وہ جو فوری توجہ کے طالب مسائل ہیں ان کا جائزہ لیں اور خاص طور پر معیشت کی ابتر صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ کریں نہ کہ سیاسی فائدہ کے حصول کو اہمیت دی جائے ۔