: سفر ہجرت : اعلیٰ منصوبہ بندی اور کامیاب حکمت عملی مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

   

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ساری انسانیت کیلئے تاابد عملی نمونہ ہیں ، آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہر انسان کو زندگی کے ہر موڑ میں رہنمائی نظر آئیگی ، بطور خاص مکہ مکرمہ میں اسلام کے آغاز سے مدینہ منورہ کو ہجرت کرنے تک آپ ﷺنے صبرآزما مراحل اور ہمت شکن حالات میں جس پامردی ، استقامت ، بلندہمتی ، استقلال ، منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی کا مظاہرہ فرمایا وہ تاریخ میں سنہری حروف سے نقش ہے اور تاقیامت اہل حق کو دشوارکن حالات میں صبر و یقین کا پیغام دیتے رہیں گے ۔ دور حاضر میں اہل اسلام نہ صرف بلند ہمتی اور اقدامی جدوجہد سے محروم ہیں بلکہ نفسیاتی طورپر ضعف اور پست ہمتی کا شکار ہیں اور تقدیر کاشکوہ کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ ان کی قلبی اور نفسیاتی کیفیت ان کے ضعفِ ایمانی کی غماز ہے ۔
آج مسلمان اپنے شخصی مسائل ، گھریلو مسائل ، ازدواجی مسائل، عائلی مسائل ، معاشی مسائل ، صحت کے مسائل سے گھرے ہوئے ہیں ۔ بطور خاص نوجوان عین جوانی میں ذہنی دباؤ اور قلبی بے سکونی کے شکار ہیں ۔ ان حالات میں سیرت کے روشن اوراق کا سنجیدہ مطالعہ ایک مسلمان کو نہ صرف دوبارہ حالات پر قابو پانے اور اپنے مقصد کی طرف کشاں کشاں گامزن ہونے کا موقع فراہم کرسکتا ہے بلکہ دشمن کو اس کے مکروفریب کے جال میں پھنسانے اور خود کو اور اپنی قوم کو دشمن کی مکاری سے محفوظ و مامون رکھنے کاسلیقہ بھی عطا کرتا ہے۔ اس ضمن میں ہجرت مدینہ کا سفر اہل اسلام کو منظم پلاننگ ، اعلیٰ منصوبہ بندی ، کامیاب حکمت عملی کی تلقین کرتا ہے اور مشکل سے مشکل وقت میں استقلال اور کامل توکل کے ساتھ ساتھ مؤثر اسٹراٹیجی اختیار کرنے کا درس دیتا ہے ۔

نبی اکرم ﷺ نے نزولِ وحی کے ساتھ اسلام کی دعوت و تبلیغ دینی شروع کردی ، ابتداء میں آپؐ نے ان لوگوں کو دعوت دی جو آپؐ کے ساتھ ذاتی روابط رکھتے تھے نیز آغاز میں تبلیغ سینہ بہ سینہ اور محدود حلقۂ احباب میں ہوتی رہی جب خفیہ و پراسرار تبلیغ سے کسی قدر اسلام پھیل گیا تو آپؐ نے برملا تبلیغ فرمائی اور اپنے کنبہ و قبیلہ کو دعوت دی بعد ازاں علی الاعلان عمومی دعوت وتبلیغ فرمائی ۔ نتیجہ میں غیرتوغیر اپنے بھی جانی دشمن ہوگئے لیکن تبلیغ کاسلسلہ جاری رہا اور جب مکہ مکرمہ کے لوگ مسلمان ہونا شروع ہوگئے جن میں بالخصوص نوجوان زیادہ تھے تو اُن کے بڑے لوگوں نے ان کو طرح طرح سے ایذائیں دیں ، مارا پیٹا ، بیڑیاں لگاکر قید کیا ، بے چھت کے کمروں میں بند کیا ، تپتی ریت پر گھسیٹا مگر ان کی یہ اذیتیں بے اثر ثابت ہوئیں ،نبی اکرم ﷺ کو نت نئی تکلیفیں دیں اور آپؐ نے محسوس کیا کہ مکہ میں امن و سکون سے تبلیغ مشکل سے مشکل تر ہوگئی تو آپؐ مضافات تشریف لے جانے لگے خصوصا حج کو آنے والے اجنبیوں کو تبلیغ فرماتے لیکن دشمنوں کی کدو عداوت اور بڑھ گئی بعثت پر تقریباً پانچ سال گزرے تھے اور چالیس پچاس آدمی مسلمان ہوچکے تو آپؐ نے ۵ نبوی میں صحابہ کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دی ۔ چنانچہ (۱۱) یا (۱۲) مسلمان مرد چار یا پانچ خواتین کی پہلی جماعت نے ہجرت کی ، اس پر مزید کچھ لوگ روانہ ہوئے بعد ازاں (۸۳) مسلمانوں نے آپؐ کی اجازت سے ہجرت کی ۔ کفار قریش نے مسلمانوں کا پیچھا نہیں چھوڑا لیکن حبشہ میں اُن کی سفارت ناکام ہوئی ۔ ۷؁ نبوی میں بنوہاشم اور بنوعبدالمطلب سے شادی بیاہ ، خرید و فروخت حتی کہ بات چیت بھی نہ کرنے کا حلف لیاگیا ، بائیکاٹ کے سبب اہل اسلام نہایت سخت دور سے گزرے ۱۰؁ نبوی میں یہ بائیکاٹ ختم ہوا ، اس عرصے میں آپؐ کے رفقاء شعب ابی طالب میں محصور رہے ۔ اس محاصرے سے نکلنے کے بعد سردارانِ قریش نے آپؐ کے خلاف مزید گھیرا تنگ کردیا تو آپ ﷺ طائف تشریف لے گئے ، اہل طالب کا رویہ حوصلہ شکن تھا ، انھوں نے پتھر مارمارکر آپ ﷺ کو زخمی کردیا لیکن آپؐ کے جذبۂ تبلیغ پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو معراج کی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا ۔ معراج سے واپسی پر آپؐ نے تبلیغ کی مہم کو مزید تیز کردیا بالآخر میدانِ منیٰ کے باہر ’’عقبہ‘‘ (پہاڑ کی گھاٹی) پر چھ افراد پر مشتمل ایک چھوٹی جماعت کو تبلیغ دی جو مراسم حج ادا کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے آئے تھے وہ فی الفور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور گھر واپس ہوکر جدوجہد کرنے کا وعدہ کیا اور یہ تاریخ میں ’’بیعت عقبہ اولیٰ‘‘ کہلاتی ہے ۔ دوسرے سال ۱۱؁ نبوی کو پانچ پرانے اور سات نئے افراد حاضر ہوئے اور بیعت کی ، حضور پاک ﷺ نے ان کے ساتھ حضرت مصعب بن عمیر کو بطور معلم روانہ کیا ۔ بعض کے مطابق یہ ’’بیعت عقبہ ثانیہ‘‘ کہلاتی ہے ۔حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ سے بہت سرعت سے اسلام کی اشاعت ہونے لگی ۔ تیسرے سال یعنی ۱۲ نبوی تہتر مرد اور دو خواتین نے ایام تشریق میں پہاڑ کی گھاٹی (عقبہ) میں بیعت کی اور حضور پاک ﷺ کو مدینہ منورہ آنے کی دعوت دی اور آپﷺ کی اپنے اہل و عیال کی طرح حفاظت کرنے کا عہد کیا یہ (تیسری) بیعت عقبہ ثالثہ کہلاتی ہے ۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ کے مسلمان چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں ہجرت کرکے جانے لگے ۔ مسلمانانِ مکہ کے ترک وطن پر کفار قریش گھبراگئے کہ اہل اسلام کسی دوسرے علاقے میں قوت حاصل کرکے مکہ پر حملہ آور نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں عمومی مشورہ کے بعد ایک تجویز طے پائی کہ ہر قبیلہ کے ایک بہادر جوان کو چنا جائے اور یہ لوگ مشترکہ طورپر نعوذباﷲ آپ ﷺ کا حتمی فیصلہ کردیں تاکہ بنوہاشم اور مسلمانوں کو سارے قبائل سے جنگ کرنے کی ہمت نہ ہوسکے اور وہ خون بہا لینے پر راضی ہوجائیں۔
لمحہ فکر : مکہ کی پوری طاقت ایک ہوگئی ، مسلمانوں کی بظاہر چھوٹی سی قوت تھی وہ بھی منتشر ہوگئی ، بیشتر صحابہ ہجرت کرگئے اور تمام قبائل نے ایک حتمی فیصلہ کرلیا، دوسری کوئی صورت نہیں، اب بات جان پر آگئی ، نہ افراد ہیں ، نہ اسلحہ ہیں ، نہ مادی وسائل ہیں ۔ سب سے مشکل اور تنگ حالات میں جس حکمت عملی سے آپ ﷺنے ہجرت مدینہ کی منصوبہ بندی کی وہ آپ ﷺ کے کمال دانشمندی کی روشن مثال ہے ۔ آپ ﷺکی کامیاب حکمت عملی کے سامنے پوری اسٹیٹ ، تمام قوت ، ذرائع ابلاغ سب ناکام و نامراد ہوگئے اور آپؐ بے فکر اور محفوظ مدینہ منورہ کو پہنچ گئے ۔ اس سفر ہجرت میں جو تدابیر اختیارا کی گئی ہیں ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے تاہم چند واضح نقاط پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے ۔
۱۔ جونہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عنقریب ہجرت کا اندازہ کرلیا تو چار مہینے سے پراسرار طورپر دو سواریوں کو تیار کرتے رہے ۔ ۲۔ دشمن کو لاعلم رکھنے کی خاطر آپ ﷺ معمول کے مطابق رات میں اپنے گھر واپس ہوئے اور دشمن کو رات بھر مشکوک رکھنے کے لئے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر پر آرام کرنے کاحکم فرمایا اور وہ دشمن رات بھر حضور پاک ﷺ کو گھر میں موجود سمجھتے رہے ۔

۳۔ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ کے شمالی جہت میں واقع ہے ۔ دشمن کو یقین تھا کہ آپ ﷺمدینہ منورہ ہی ہجرت کریں گے ۔ حضور پاک ﷺ جنوب میں یمن کی طرف پانچ میل تقریباً آٹھ کیلومیٹر کے فاصلہ پر غار ثور میں تین دن قیام کا فیصلہ فرمایا تاکہ دشمن تھک کر ہمت ہار جائے ۔
۴۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداﷲ دن بھر مشرکین کے ساتھ رہتے ، رات کو ان کی طرح گھر واپس ہوتے پھر غار ثور کو آکر دن بھر کی سرگرمیوں کی اطلاع دیتے ، رات میں ساتھ رہتے صبح فجر سے قبل گھر واپس ہوتے اور مشرکین سے ملاقات کرتے ۔ ان کو کوئی شبہ نہیں ہوتا ۔ ۵۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے غلام عامر بن فھیرۃ بکریاں چرانے کیلئے اسی جانب نکلتے تاکہ حضرت نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؒ بعد ازاں حضرت عبداﷲ بن ابی بکر ؓکے قدموں کے نشانات کو مٹاسکیں۔ ۶۔ تین دن بعد مدینہ منورہ کو بحر احمر کے کنارہ سے غیرمانوس اور غیرمعروف راستے سے سفر کرتے ہیں ۔ ۷۔ اس غیرمعروف و پرخطر راستے میں سہولت کی خاطر واقف کار کو جوکہ غیرمسلم ہے اُجرت پر حاصل کرتے ہیں تاکہ اس کی نقل و حرکت پر کفار مکہ کو کوئی شبہ ہی نہ ہو ۔
اس طرح اس سفر ہجرت میں اہل اسلام کیلئے درس و نصیحت ہے کہ وہ کٹھن سے کٹھن حالات میں اپنی ذہنی صلاحیتوں پر قابو رکھیں ۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے بہترین حکمت عملی اختیار کریں اور دشمن باوجود یہ کہ طاقت و قوت ، اسلحہ و مادی وسائل سے آراستہ ہو مسلمان کی حکمت کے سامنے عاجز و مقہور اور ناکام و نامراد ہونا چاہئے ۔