سنت کی تاریخی حیثیت

   

عہد رسالت کے کچھ ابتدائی حصے کو چھوڑکر باقی حصے میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کتابت حدیث کا کام بھی بڑے اہتمام سے کرتے رہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے احادیث کا جو مجموعہ مرتب کیا تھا، وہ ایک ہزار احادیث پر مشتمل تھا اور اس مجموعہ کا نام ’’الصادقہ‘‘ تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے پانچ سو احادیث پر مشتمل ایک صحیفہ تیار کیا تھا، جس کو آپ نے خود ہی ضائع کردیا کہ ممکن ہے کوئی غیرمعتبر حدیث اس میں آگئی ہو اور میں روز قیامت پکڑا جاؤں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک صحیفہ تھا، جس میں بعض احکام قوانین درج تھے۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی ایک صحیفہ احادیث تھا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی ایک صحیفہ تھا، جس کی سند سے حضرت مجاہد اور قتادہ احادیث روایت کرتے تھے اور دونوں بزرگوں نے اس صحیفے کو حفظ کرلیا تھا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی ایک صحیفہ تھا۔ حضرت عبد اللہ بن اوفی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی ایک صحیفہ تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس متعدد صحیفے تھے۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت نے کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ اپنے پیچھے چھوڑا تھا کہ ایک اونٹ پر پورے بوجھ کا کام دے سکتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھی ایک صحیفہ تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے شاگرد ہمام بن منبہ کے پاس بھی ایک صحیفہ تھا، جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے صحیفہ سے ماخوذ تھا۔ یہ صحیفہ آج بھی دمشق کی لائبریری میں محفوظ ہے، جس کی تحقیق و تدقیق ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے کی، جو ۱۹۵۳ء میں دمشق سے شائع ہوا اور اب اس کا اردو میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ یہ صحیفہ ہمام بن منبہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ کتابت حدیث کا کام خود عہد رسالت میں شروع ہو چکا تھا۔
فتح مکہ کا اہم ترین خطبہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ابوشاہ یمنی صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کی درخواست پر قلم بند کیا گیا اور انھیں دیا گیا۔ صلح حدیبیہ کا پورا صلح نامہ لکھا گیا، جس کی ایک نقل قریش نے لی اور ایک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس رکھی۔ سلاطین کے نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط اس سلسلے میں خاصی شہرت رکھتے تھے۔ مقوقس شاہ مصر کے نام جو خط بھیجا گیا تھا، وہ ایک عیسائی گرجا کی کسی کتاب سے ابھی حال میں دریافت ہوا ہے، جس کی عبارت من و عن وہی ہے، جو چودہ سو سال سے روایت ہوتی چلی آرہی ہے، اس کا فوٹو بھی شائع ہو چکا ہے۔ یہ احادیث کی صحت کی کتنی بڑی دلیل ہے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی اور ان کے نام لکھوائے، جو پندرہ تھے۔ زکوۃ کے احکام اور ان کی مختلف شرحیں پورے دو سو صفحات میں لکھی گئیں اور یہ صفحات خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء کے پاس بھجوائے، اس کی ایک نقل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھی، پھر حضرت عمر بن حزم رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان میں رہی۔ حضرت عمر بن حزم کو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا حاکم بناکر بھیجا تو ایک تحریر لکھواکر ان کے ساتھ دی، جس میں قانون میراث اور صدقات وغیرہ کے متعلق بہت سی ہدایات تھیں۔ یہ وہ کام ہیں، جو قرن اول میں انجام پایا۔ اس کام سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے حدیث و سنت کی حفاظت سے ایک لمحہ بھی غفلت نہیں برتی۔ پھر اس کے بعد تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں تو عالم اسلام کا ایک ایک گھر حدیث و سنت سے گونج اٹھا۔
اس سارے کام کو دیکھ کر یہ نہ سمجھا جائے کہ رطب و یابس سب کچھ لے لیا گیا ہوگا اور قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر جس نے بھی کچھ کہا، اس کو آنکھ بند کرکے قبول کرلیا گیا ہوگا۔ حدیث و سنت کی تحقیق و تدقیق میں محدثین نے جس بالغ نظری سے تنقید کا کام کیا ہے، وہ واقعی ان ہی کا حصہ تھا۔ ہم یہاں محدثین کے اس معیار کو پیش کر رہے ہیں، جس پر ہر حدیث کو جانچا اور پرکھا گیا۔ محدثین نے حدیث کو جانچنے اور پرکھنے کے سلسلے میں دو معیار مقرر کئے ہیں، ایک حدیث کی عبارت، اس کے معنی اور مفہوم کو جانچنے کا معیار اور دوسرا سند حدیث کو جانچنے کا معیار۔
متن حدیث کو جانچنے کا معیار کچھ اس طرح مقرر کیا گیا کہ متن حدیث کا مضمون نص قرآنی کے خلاف نہ ہو، سنت متواترہ کے خلاف نہ ہو، اجماع قطعی یعنی صحابہ اور تابعین کے اجماع کے خلاف نہ ہو، امت مسلمہ کی عام عقل سلیم کے خلاف نہ ہو، یعنی فرد واحد نہیں بلکہ عام مسلمانوں اور سواد اعظم کی عقل سلیم اس کو محال نہ سمجھتی ہو۔ شریعت کے مسلمہ اصول و مبادی اور قواعد کلیہ کے خلاف نہ ہو، حدیث کا مضمون ایسا ہو کہ اس کا جاننا تمام مکلف مسلمانوں پر فرض ہو اور نہ جاننے کے لئے کوئی عذر بھی نہ ہو، اس کے باوجود اس کا راوی صرف ایک ہو۔ جس عہد کا واقعہ بیان کیا گیا ہو، وہ مسلمہ تاریخی شہادت کے صریحاً خلاف نہ ہو۔ حدیث کے الفاظ رکیک اور سوقیانہ نہ ہوں، ادب و زبان عربی کے عام قواعد کے خلاف اور شان نبوت و منصب رسالت کے منافی نہ ہوں۔ معمولی کام پر غیر معمولی اجر و ثواب کا وعدہ یا معمولی بات پر سخت عذاب کی وعید نہ ہو۔ حدیث میں کسی ایسے محسوس عام اور مشاہد انام واقعہ کا بیان کیا گیا ہو کہ اگر وہ وقوع پزیر ہوتا تو ہزاروں آدمی اس کو دیکھنے اور مشاہدہ کرنے والے ہوتے اور سیکڑوں اس کی روایت کرنے والے ہوتے، مگر اس کے باوجود اس کے راوی صرف ایک دو ہی ہوں۔ جعلی حدیث گڑھنے والے نے خود ہی حدیث گڑھنے کا اعتراف کرلیا ہو۔سلسلۂ سند حدیث کے ہر راوی کا درج ذیل معیار پر پورا اترنا ضروری ہے۔ صادق القول ہو، یعنی زندگی کے تمام معاملات میں عموماً اور روایت حدیث میں خصوصاً نہایت سچا ہو، پوری سند میں اگر ایک راوی بھی ایسا ہو کہ جس کا پوری عمر میں ایک دفعہ بھی جھوٹ بولنا ثابت ہوجائے تو اس کی کوئی روایت ہمیشہ کے لئے تمام علمائے حدیث کے نزدیک بالاتفاق نامعتبر اور ناقابل قبول ہوگی۔ راوی فہم اور عاقل ہو، یعنی غبی، کند ذہن اور کم عقل نہ ہو، خصوصاً فہم حدیث کی پوری صلاحیت اور ملکہ رکھتا ہو اور اس میں کبھی غلطی نہ کرتا ہو۔ راوی گناہ کبیرہ سے دور (عادل) ثقہ اور معتبر ہو، متقی و پرہیزگار اور خدا ترس ہو۔ حدوداللہ کا پابند اور فسق و فجور سے متنفر ہو۔ روایت حدیث میں محتاط ہو، حدیث بیان کرنے میں بے پرواہی اور سہل انگاری نہ کرتا ہو۔ حدیث گڑھنے کا اس پر کبھی شک تک نہ کیا گیا ہو اور اس قسم کی تہمت اور الزام سے بالکل بری اور پاک ہو۔ معروف الحال ہو، مجہول الحال نہ ہو، یعنی اہل علم اور اہل تقویٰ کے درمیان وہ اس طرح متعارف ہو کہ اس کے نام و نسب، اخلاق و سیرت، علم و فضل، قوت حافظہ اور اس کے ثقہ و معتبر ہونے کا حال سب کو معلوم ہو۔ لوگوں کی نگاہوں میں اس کا چال چلن، رفتار و گفتار، اخلاق و معاملات اور اس کا اسلامی کردار ہر طرح قابل اطمینان ہو۔ (باقی تسلسل آئندہ)