’’سوشیل میڈیا ۔ کیا کھویا ، کیا پایا

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
آج کے زمانے میں سوشیل میڈیا نے ایک انقلاب برپا کر رکھا ہے جو جنگل کی آگ کی طرح ساری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ فیس بک ، انسٹاگرام ، ٹوئٹر اور واٹس اپ کے لوگ اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ بس پوچھئے مت ۔ کسی سے اُس کا موبائیل فون ایک دن کے لئے چھین لیجئے اور پھر دیکھئے شام تک وہ کس طرح مُرجھا جاتا ہے۔ بالکل ایک پودے کی طرح جس کو پانی اور کھاد سے محروم کردیا جائے ۔ دراصل یہ عادت (Addiction) جسم ( خون میں ) ایک ہارمون (Dopamine) کے اخراج سے پیدا ہوتی ہے جو تھوڑی دیر کے لئے خوشی اور تسکین دیتا ہے ۔
سوشیل میڈیا کے جہاں کئی فائدے ہیں ، وہاں اگر اُس کا صحیح استعمال نہ کیا جائے توبہت سارے نقصانات بھی ہیں۔ یہ لوگوں کے اپنی اظہار رائے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن ہم نے اسے اپنی اختلاف رائے کو شدت سے دوسروں پہ مسلط کرنے کیلئے استعمال کیا ہے اور کررہے ہیں۔ بے شک اس نے ہماری سیاسی ، سائنسی ، ادبی ، مذہبی معلومات میں کافی اضافہ کیاہے ۔ فاصلاتی مواصلات کو بہت کم کیا ہے ، سیاستد انوں نے اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے لوگوں کو آپس میں لڑانے اور جھگڑوانے کیلئے استعمال کیاہے ۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلوں کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر مذہب کے ٹھیکے داروں نے ایک اﷲ ، ایک قرآن ، ایک رسول ، ایک دین کو ماننے والوں کو مسلکی فرقہ بندی میں بانٹ کر ایک دوسرے سے الگ تھلگ کردیا ہے اور پوری قوم و ملت کو بانٹ دیا ہے جو ساری دنیا میں غیرمتحد ہوکر ذلیل و خوار ہورہے ہیں ۔
چاہئے تو یہ تھا کہ ہم سوشیل میڈیا کا صحیح استعمال کرتے ہوئے امن و امان ، رواداری ، ایمانداری ، انسانیت ، اخلاص عمل کے لئے استعمال کرتے اور لوگوں کو آپس میں جوڑتے لیکن ہم نے اسے بُغض و عناد جلن و حسد ، غم و غصہ اور تشدد کے لئے استعمال کیا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے ہیں ۔ ہم نے سوشیل میڈیا کو اپنی بڑائی ، دکھاوا اور خوش نمائی کا بہترین ذریعہ بنالیاہے ۔
سوشیل میڈیا سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اُس نے ہمارے ظاہر اور باطن کو الگ الگ کردیا ہے نہ وہ پاکیزگی رہی اور نہ وہ یگانگی ۔ زیادہ تر لوگوں کے دو چہرے اُبھرکر سامنے آئے ہیں ۔ ایک واٹس اپ ، فیس بُک کا صاف و شفاف چہرہ جس میں وہ اچھی اچھی قرآنی آیات ، پیاری پیاری احادیث اور اصلاحی اقوال زرین پوسٹ کرتے ہیں لیکن اپنی عملی زندگی میں اس کے برعکس ہیں ۔ اور اپنی ہی پوسٹ کے خلاف طرزِ زندگی اپنائے ہوئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اُن کے اس دوغلہ پن کے متعلق کہتا ہے : ’’اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے‘‘ (الصف:۳) پسندیدہ حُسن یہی ہے کہ ظاہر و باطن یکساں ہوجائیں ۔ اﷲ تعالیٰ مزید فرماتا ہے ۔ ’’تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی بچو۔ جو لوگ گناہوں کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پاکر رہیں گے ‘‘ ۔ ( سورۃ الانعام : ۱۵۰)
یعنی ظاہر اور باطن کی پاکیزگی و یگانگی انسان کو خوبصورت اور خوب سیرت بناتی ہے ۔ عیوب کی پردہ پوشی کرکے اور ظاہر کو خوبصورت دکھاکر معاملات طئے کرنے میں نہ کوئی بھلائی ہے اور نہ کوئی فائدہ ۔ اس پرفریب طریقے سے ناپسندیدہ تلخ حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ظاہر کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے ۔ ہمارے سامنے ہمارے پیارے نبیﷺ کا اُسوۂ حسنہ ایک کُھلی کتاب ہے جس میں آپؐ سفید کپڑے زیب تن کیا کرتے تھے وہ اس لئے ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے ۔
مومن کی شان یہ ہے کہ اس کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے اور منافق کی علامت یہ ہے کہ اُس کا ظاہر و باطن الگ الگ ۔ اﷲ اور اُس کے رسول ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنا باطن پاکیزہ بنائیں ، اُسے ہر بُرائی سے بچائیں اور اُسے ظاہر کی طرح پاک و صاف رکھیں۔
اﷲ تعالیٰ معرفت اور حکمت کی نعمتیں اُسی انسان کو دیتا ہے جو اپنے ظاہر و باطن کو یکساں رکھتا ہے اور اپنے معاملات میں احسان کا عمل کرتا ہے ، اپنے نفس اور انا پر قابو رکھتا ہے ، لوگوں میں محبتیں بانٹتا ہے ۔
جوگ اپنی زندگی اور تمام معاملات میں اﷲ تعالیٰ سے ربط قائم رکھتے ہیں اﷲ تعالیٰ اُنھیں اپنے آپ سے مربوط اور منسوب کرلیتا ہے اُن کے ظاہر و باطن کو حسین و جمیل بنادیتا ہے اور یکساں کردیتا ہے ۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’جس نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں آگیا ‘‘ اس لئے لوگو فجر کی نماز پابندی سے پڑھا کرو کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں اپنی ذمہ داری میں لے لے ، تمہارے ظاہر و باطن کو دو چہروں کو ایک کردے ۔