سونیا گاندھی بھی یاترا کا حصہ

   

ذرا آہستہ لے چل کاروانِ کیف و مستی کو
کہ سطحِ ذہنِ عالم سخت ناہموار ہے ساقی


کانگریس کی صدر سونیا گاندھی بھی اب راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں حصہ لیں گی۔ وہ اس یاترا میں حصہ لینے کیلئے میسورو پہونچ چکی ہیں۔ یاترا کو دو دن کا وقفہ دیا گیا ہے اور جمعرات کو اس کا دوبارہ آغاز ہوگا اور سونیا گاندھی اس یاترا کا حصہ بنیں گی ۔ وہ بھی راہول گاندھی کے ساتھ کچھ دور جائیں گے ۔ کہا جا رہا ہے کہ پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا بھی کسی مرحلہ پر راہول گاندھی کی یاترا میں شامل ہونگی ۔ کہا جا رہا تھا کہ سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی ایک ساتھ اس یاترا میںشامل ہونگی تاہم فی الحال صرف سونیا گاندھی ہی میسورو پہونچ چکی ہیں اور وہ یاترا میں شامل ہونگی ۔ ابھی یہ واضح نہیںہوسکا ہے کہ پرینکا گاندھی واڈرا یاترا میںکب شامل ہونگی ۔ حالیہ کچھ عرصہ میں سونیا گاندھی کی صحت ٹھیک نہیںرہی تھی اور اسی وجہ سے وہ پارٹی کی انتخابی مہم میں بھی حصہ لینے سے گریز کرر ہی تھیں۔ تاہم اب وہ راہول گاندھی کی اس یاترا میں حصہ بننے میسورو پہونچ چکی ہیں اس سے کانگریس کارکنوںاور قائدین میں ایک اچھا پیام جاتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں یاترا کو ملنے والی عوامی تائید بھی بڑھ سکتی ہے اور عوام میں بھی سونیا گاندھی کی شمولیت کا اچھا اثر ہوسکتا ہے ۔ کیرالا سے شروع ہونے والی یہ یاترا اب کرناٹک میں داخل ہوچکی ہے اور ایک مرحلہ مکمل کرنے کے بعد دودن کا وقفہ دیا گیا ہے ۔ اس یاترا کے ذریعہ راہول گاندھی عوام سے قریب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ حالانکہ اس کے سیاسی مقاصد نہ ہونے کا دعوی کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ملک میں پائے جانے والے نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کیلئے یہ یاترا شروع کی گئی ہے اور اس کے ذریعہ سماج کے مختلف طبقات کے مابین تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم اس یاترا کے سیاسی پہلووں سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس کے اثرات بھی دکھائی دینے لگے ہیں ۔ اسی وجہ سے سونیا گاندھی بھی اس یاترا میں حصہ لینے پہونچ چکی ہیں۔ اس یاترا کے ذریعہ ملک کے عوام سے کانگریس پارٹی کے رابطوں کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ یہی وہ پہلو ہے جس کو دوسری جماعتوں کی جانب سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے ۔
کانگریس کی مختلف ریاستی یونٹوں کی جانب سے بھی جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یاترا کے سیاسی پہلو کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ سونیا گاندھی کی اس یاترا میں شمولیت سے عوام سے رابطوں کو مزید موثر انداز میں بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ سونیا گاندھی پر سیاسی تنقیدیں بھی ہوسکتی ہیں تاہم اس قدر شدت کی تنقیدیں نہیں ہوسکتیں جتنی شدت سے بی جے پی اور اس کے زر خرید ٹی وی اینکرس راہول گاندھی کو نشانہ بناتے ہیں۔ کانگریس نے سونیا گاندھی کو اس یاترا کا حصہ بناتے ہوئے ایک سیاسی داؤ کھیلا ہے اور اس کا بھی اسے فائدہ مل سکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس یاترا کو ہر طرح کے تنازعات سے دور رکھا جائے ۔ اس کو متنازعہ بننے سے روکنے کیلئے حکمت عملی بنائی جانی چاہئے ۔ پارٹی کے دوسرے قائدین کو غیر ذمہ دارانہ تبصرے اور متنازعہ بیان بازیوں سے روکا جانا چاہئے ۔ راہول گاندھی کی یاترا کو ابتداء میں جس طرح کا رد عمل مل رہا تھا اور ٹی وی چینلوں پر جس طرح سے اس کو موضوع بحث بناتے ہوئے عوام کی توجہ مبذول کروائی جا رہی تھی اس کو روکنے میں راجستھان کے چیف منسٹر اشوک گہلوٹ کا اہم رول رہا ہے ۔ انہوں نے پارٹی مشورہ کو نظر انداز کیا اور ارکان اسمبلی کو بغاوت پر اکساتے ہوئے پارٹی اور قیادت دونوں ہی کو مایوس کیا ہے اور اپنی وابستگی کو بھی مشکوک کرلیا ہے ۔ ان کی عملا بغاوت سے بھارت جوڑو یاترا کے تعلق سے جو ماحول پیدا ہو رہا تھا اس کو متاثر کرنے میں مدد ملی ہے ۔
اب جبکہ سونیا گاندھی بھی اس یاترا کا حصہ بن رہی ہیں اور جب وہ عوام کے درمیان جائیں گی تو اس کے اثرات بھی پارٹی پر مرتب ہوسکتے ہیں اور پارٹی عوام سے قریب ہونے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ اس صورتحال میں پارٹی کے دوسرے قائدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مثبت حالات کو متاثر کرنے والے بیانات یا اقدامات سے گریز کریں۔ پارٹی کے ذمہ دار قائدین کو چاہئے کہ وہ تمام قائدین کیلئے ایک دائرہ کھینچ دیں اور انہیںاس کے باہر آنے کی اجازت نہ دی جائے ۔ جو ماحول بن سکتا ہے اور جو سیاسی فائدہ اس یاترا کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے اس کو متاثر ہونے سے بچانے پر خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔