سویڈن۔ اسٹاک ہوم کی مسجد کے باہر مظاہرین نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی

,

   

میڈیارپورٹس کے مطابق پولیس نے بعد میں اس شخص کو گرفتار کیااور اس پر کسی نسلی یا قومی گروہ کے خلاف تحریک چلانے کا الزام عائد کیا۔
اسٹاک ہوم۔عید الاضحی کی نماز کے بعد چہارشنبہ کے روز پولیس کی اجازت کے ساتھ سویڈن کی اسٹاک ہوم جامعہ مسجد کے باہر ایک چھوٹے سے احتجاج میں ایک احتجاجی نے مقدس قرآن مجید کے نسخوں کے صفحات کی بے حرمتی کی ہے۔

ایک عراقی نژاد 37سالہ سلوان مومیک نے اس عمل کو کرنے کے لئے پولیس سے اجازت مانگی تھی تاکہ ”قرآن کے متعلق اپنے رائے کا اظہار کرسکے“۔اندولو نیوزایجنسی کے مطابق ایک تحریری فیصلے میں پولیس نے کہاکہ انہیں احتجاج کی اجازت دی گئی تھی ”جس کے منتظم نے اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے مقدس قرآن کے ایک نسخے کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی“۔

مذکورہ فیصلہ سویڈن کی اپیل کورٹ کی جانب سے جنوری میں ترکی کے سفار ت خانے کے باہر مسلمانوں کی مقدس قرآن مجید کو نذر آتش کرنے پر مشتمل مظاہروں پر پولیس کی پابندی کو مستر د کردئے جانے کے دو ہفتوں بعد سامنے آیاہے‘ جس کے بعد سویڈین کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے اور سویڈن کے سامان کے بائیکاٹ کی اکی اپیل بھی کی گئی اور اس کے علاوہ این اے ٹی او سے سویڈین کی رکنیت کو برخواست کرنے کی بھی مانگ کی گئی تھی۔

چہارشنبہ کے روز پولیس کی بھاری جمعیت کے گھیرے میں مومیک نے ایک مائیکرو فون کے ذریعہ متعدد درج لوگوں کے ہجوم سے خطاب کیا۔

اس کے کانوں میں ائیر پوڈس اور سگریٹ منہ میں سگریٹ تھا اور وہ قرآن کی بے حرمتی کررہا تھا‘ اور سویڈن کا پرچم لہراتے ہوئے اس نے قرآن کے چندصفحات کو نذر آتش بھی کیا۔


یہ ایسا منظر تھا جس نے عید الاضحی منانے والے مسلمان کمیونٹی کو حیران او رپریشان کردیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق پولیس نے بعد میں اس شخص کو گرفتار کیااور اس پر کسی نسلی یا قومی گروہ کے خلاف تحریک چلانے کا الزام عائد کیا۔

قابل ذکر ہے کہ ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدن نے عید الاضحی کے پہلے دن سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے ”قابل نفرت عمل“ کی سخت الفاظوں میں مذمت کی ہے۔


انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہاکہ اظہار خیال کی آزادی کے بہانے ان اسلام مخالف کاروائیوں کی اجازت دینا”ناقابل قبول“ ہے اور اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں سے آنکھیں چرانے کا مطلب ان کے ساتھ شریک ہونا ہے“۔