سپریم کورٹ پر جمہوری عوام کی نظریں

   

چل کے ہم بھی دیکھیں گے اس ندی کی گہرائی
دل میں ایک بات آئی اس برستے پانی میں
سپریم کورٹ پر جمہوری عوام کی نظریں
شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے ) کو چیلنج کرتے ہوئے داخل کردہ درخواستوں پر سپریم کورٹ میں آج سماعت ہورہی ہے ۔ عدالت عظمیٰ پر سارے ملک کے عوام کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔22جنوری 2020 ہندوستان کے قانون وانصاف کی تاریخ کا اہم باب ہوگا، اگر سپریم کورٹ دستور کے تحفظ کے حق میں فیصلہ سناتا ہے تو یہ کروڑہا ہندوستانیوں کے ساتھ انصاف کہلائے گا ۔دستور کے پرئمبل کی لاج رکھتے ہوئے فیصلہ سامنے آتا ہے تو عوام الناس کا بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ملک بھر کے کروڑہا طلبہ برادری، عام افراد اور شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والوں نے سڑکوں پر نکل کر سی اے اے کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے۔ دارالحکومت دہلی سے لیکر تمام ریاستوں کے شہروں میں مودی حکومت کی جانب سے لائے گئے سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ احتجاجیوں کی جانب سے اس’ کالے قانون کو واپس لو‘ کا مطالبہ ہورہا ہے ۔ ملک کے عوام کو سپریم کورٹ پر کامل بھروسہ ہے ، اگر سپریم کورٹ پر غالب آنے کی کوشش کرنے والوں نے سپریم کورٹ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے یہ افسوس کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ چند فیصلے عدالت عظمیٰ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ سارے ملک میں ایک ہی صدا گونج رہی ہے کہ ’ ہم اس کالے قانون سے آزادی چاہتے ہیں‘ ۔ مودی حکومت میں اس ملک کے تمام دستوری ادارے ایک طاقت کے شکنجہ میں ہیں۔طلبہ کا احساس ہے کہ دیگر قومی ادارو ں کی طرح ملک کا سب سے اعلیٰ ترین قانون و دفعات کا مرکز سپریم کورٹ بھی ان طاقتوں کے دباؤ میں آکر دستور کی دھجیاں اُڑانے والی کوششوں کا ساتھ دے گا تو پھر ہندوستان میں قانون و دفعات کیلئے پیدا ہونے والی تمام اُمیدیں ختم ہوجائیں گی اور قانون پر سے عوام کا بھروسہ اُٹھ جائے گا ۔ ملک کو نفرت کے نام پر منقسم کرنے مودی حکومت کی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے آج ہر گھر سے صدائیں آرہی ہیں۔ حکومت کی یہ گھناؤنی سازش ہے کہ وہ ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کردے، اور حکومت ایک خاص نیت سے سی اے اے کولاگو کرنا چاہتی ہے۔ اب سپریم کورٹ ہی کو اختیار ہے کہ وہ اس’’ فرقہ پرستانہ اور غیر دستوری‘‘ قانون کو کالعدم کردے۔ عدالت میں اس قانون کو چیلنج کرتے ہوئے مودی حکومت کی سازش کو ناکام بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ آرٹیکل 131 کے تحت نئے قانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔ جب تک عدالت سے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا ریاستی حکومتیں قانون پر عمل نہیں کرسکتیں۔ کالے قانون کی دستوری افادیت کو ہی چیلنج کیا گیا ہے تو اس پر عدالت میں ایک اہم بحث ہونی چاہیئے اور حکومت کی نیت و پالیسیوں پر سوال اُٹھائے جانے چاہیئے۔ اب عدالت کی جانب سے ہی اس قانون کے بارے میں وضاحت ہونی چاہیئے کہ یہ قانون دستور کے مغائر ہے، دستور کی ابتدائی سطریں ہی پڑھ لی جائیں تو عدالت اس دستور کے تحفظ کے حق میں فیصلہ سنائے گی۔ اگر سپریم کورٹ نے سیاسی آقاؤں کے فیصلوں کو اپنے قلم کے ذریعہ عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو اس کو قانون و انصاف کا قتل قرار دیا جائے گا۔ ہندوستانی عوام کی اکثریت نے سی اے اے کو مسترد کردیا ہے تو چند مٹھی بھر فرقہ پرستوں کی خاطر عدالت عظمیٰ کو سارا وقار، رُتبہ، بھروسہ اور محترم المقام ہونے کے تصور کو ملیا میٹ نہیں کرنا چاہیئے۔ دستور میں ترمیم کرنے کی جو گستاخی کی گئی ہے اس گستاخانہ حرکت کرنے والوں کے منہ پر زوردار ھمانچہ مارنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کو آج قطعی فیصلہ کرنا ہوگا کہ سی اے اے دستور ہند کے مغائر ہے اور اس میں کی گئی ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔ دستور ہند میں اس ملک کے ہر شہری کو آزادانہ طور پر جینے کا یکساں حق دیا گیا ہے، اور سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ اس حق پر قانون کی مضبوط مُہر ثبت ہوجائے تو پھر آئندہ کوئی طاقت ملک کے ٹکڑے کرنے والے سیاہ قوانین لانے کی ہمت نہیں کرسکے گی۔