سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق مخالف ہجومی تشدد قانون کا نفاذ عمل میں لائیں‘ شہر کے وکیل کی پی ایم او میں درخواست

,

   

تلنگانہ حکومت‘ اسمبلی اجلاس میں جھارکھنڈ اسمبلی میں ریاست جھارکھنڈ کی جانب سے منظور شدہ مخالف ہجومی تشدد بل کے خطوط پر ایک خصوصی قانون بنانے کے اقدام اٹھائے


حیدرآباد۔ہندوستان میں امکانی’نسل کشی‘ اور پچھلے ماہ ہری دوار میں کھلے عام مسلمانوں کے خلاف کشی کی ترغیب پر بڑھتے عالمی تشویش کے پیش نظر شہر کے وکیل نے وزیراعظم کے دفتر‘ یونین آف انڈیا‘ حکومت تلنگانہ کو ایک درخواست پیش کی کہ 2018میں سپریم کورٹ کے دئے گئے فیصلہ کی تعمیل میں ایک خصوصی قانون تشکیل دیاجائے۔

اپنے پانچ صفحات کی درخواست میں خواجہ اعجاز الدین جو تلنگانہ اسٹیٹ ہائی کورٹ کے بار کے وکیل ہیں نے ہجومی تشدد کے مختلف واقعات کے پیش نظرجو ملک کے مختلف حصوں میں حالیہ سالوں میں رونما ہوئے تھے‘ ایک تحریری درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی جس تحسین پونا والا بمقابلہ یونین گورنمنٹ او ردیگر کے ساتھ مختلف واقعات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سنایاتھا

جو ہدایتوں‘ احتیاطی تدابیروں اور اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو اس کے دائرے کار میں شامل کرتے ہوئے اس ضمن میں اقدامات اٹھانے کو کہاتھا۔

سال2018میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلے کے اقتباسات یہ ہیں کہ 17جولائی 2018کو سنائے گئے فیصلے میں مرکز او رریاستوں کوفیصلہ کی تاریخ سے چار ہفتوں میں تمام قسم کے اقدامات اٹھانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔

ذکورہ وکیل نے اپنی درخواست میں کہاکہ ہندوستان بھر میں رونما ہونے والی ہجومی تشدد کے واقعات اوریونین آف انڈیااور ریاستوں کی شہریوں کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے کی ائینی ذمہ داری اور مجرمانہ قانون کو حرکست میں لینے کے پیش نظر مذکورہ سپریم کورٹ نے محسوس کیاکہ فطری طور پر یہ معاملہ نہایت حساس ہے‘

اپنے تاریخی فیصلہ (2018) میں سپریم کورٹ معاملہ 501‘ تحسین پونا والا‘بمقابلہ یونین آف انڈیا او ردیگر میں اس خطرے کو روکنے کے لئے ”احتیاطی اقدامات‘علاجی اقدامات‘ تزکیاتی اقدامات‘ وضع کئے گئے ہیں

مذکورہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کوواضح طور پرسفارش کی ہے کہ ہجومی تشدد کے لئے ایک علیحدہ قانون بنائے اور اسی کے لئے سزا کا بھی تعین کرے۔

مذکورہ وکیل نے اپنی اس درخواست میں کہاکہ اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے یہ کہاکہ یہ خصوصی قانون ان لوگو ں خوف کااحساس پیدا کرے گا جو اس طرح کے واقعات اور سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ایسا کرنے میں ناکامی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔

خواجہ اعجاز الدین نے کہاکہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اقلیتوں کے خلاف نفرت کے پھیلاؤ کے پیش نظر متنبہ کیاہے کہ نسل کشی دور نہیں ہے اور ریاستو ں کوچاہئے کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایک خصوصی قانون بنائیں۔