سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے

   

ایک ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان میں تمام اہم دستوری اور قانونی عہدوں کی غیر جانبداری مشکوک ہوتی جا رہی ہے اور ان پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان اداروں پر اپنے تسلط اور غلبہ کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسے میں عدلیہ کی آزادی اور اس کے فیصلے عوام کیلئے اور خاص طور پر فکرمند شہریوں کیلئے اہمیت کے حامل ہوتے جا رہے ہیں ۔ عدالتوں پر عوام کا جو یقین ہے اور عدلیہ سے جو امیدیں ہیں وہ پوری ہورہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ عدلیہ کی آزادی پر بھی سوال اٹھائے گئے تھے اور اس پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس کوشش میںتوقعات کے مطابق کامیابی نہیں ملی ہے اور عدلیہ نے اپنے وقار اور اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اہم مواقع اور اہم مسائل پر عدالت کی جانب سے کئے جانے والے فیصلے ملک کے عوام میںا عتماد کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں اور ان فیصلوں کی وجہ سے ان عناصر کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے جو قانون سے کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر حکومتیں بھی سیاسی مفادات کی خاطر کوئی فیصلے کرتی ہیں تو عدالت کی جانب سے ان کو روکا جا رہا ہے ۔ اسی طرح کے دو فیصلے دو دن قبل دئے گئے ۔ دونوں ہی فیصلے ملک کے عوام میں اعتماد بحال کرنے میں معاون اور مددگار ثابت ہونگے ۔ حکومت نے ہنڈن برگ ۔ اڈانی معاملہ کی جانچ کیلئے بھی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ دیا ہے حالانکہ حکومت اس سے مسلسل انکار کر رہی تھی باوجود اسکے کہ یہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ ہزاروں کروڑ روپئے کا معیشت کو نقصان ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ اڈانی گروپ پر اور بھی بے قاعدگیوں کے الزامات ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے اڈانی گروپ کی بے قاعدگیوں اور قواعد کی خلاف ورزی کی اطلاع کے باوجود اس کو کنٹراکٹس دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ حکومت ویسے تو تمام ہی الزامات کی تردیدکرتی رہی ہے لیکن حقائق کو منظر عام پر لانے کیلئے غیرجانبدارانہ تحقیقات ضروری ہوتی ہیں اور عدالت نے اسی کو واضح کیا ہے ۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے سابق جج کی نگرانی میںتحقیقات کا حکم دیا ہے ۔
اسی طرح ایک اور فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر سے متعلق ہے ۔ اس فیصلے نے بھی حکومت کو قواعد و قوانین کی یاد دہانی کروادی ہے ۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میںاختیارات کو غیر مرکوز کرنے پر ساری توجہ رہتی ہے ۔ یہ روایت رہی ہے کہ اہم تقررات میں مشاورت کے بعد فیصلے کئے جاتے رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت ایسا لگتا ہے کہ اقتدار اور اکثریت کے زعم میں مبتلا ہے اور وہ ہر طرح کی روایات کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے معاملے میں بھی مشاورت کا طریقہ ختم کردیا گیا تھا ۔ تاہم عدالت نے واضح کردیا کہ چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمشنر جیسے اہم تقررات در اصل وزیر اعظم ‘ چیف جسٹس آف انڈیا اور لوک سبھا میں قائدا پوزیشن پر مشتمل کمیٹی کی مشاورت سے کئے جانے چاہئیں۔ دیگر اہم اور حساس نوعیت کے تقررات میں بھی یہی روایت رہی تھی ۔ موجودہ حکومت نے اس روایت کو خیرباد کہدیا تھا اور اپنی مرضی سے فیصلے کئے جارہے تھے بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ فیصلے مسلط کئے جا رہے تھے ۔ عدالت نے تاہم حکومت کو ایسا کرنے سے روک دیا ہے اور یہ واضح کردیا کہ اہمیت کے حامل تقررات کسی فرد واحد کے ذریعہ نہیں کئے جاسکتے بلکہ ایک کمیٹی اس کی ذمہ دار ہونی چاہئے اور اسی کے ذریعہ مشاورت کے بعد تقررات عمل میں لائے جانے چاہئیں۔ عدالت کے یہ فیصلے انتہائی اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے ذریعہ ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے اور وفاقی حکمرانی کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے ۔ یکطرفہ طور پر یا من مانی انداز میں ایسے تقررات ملک کے مفاد میں نہیں کہے جاسکتے ۔
موجودہ حکومت کے کئی فیصلے ایسے ہیں جن پر عدالتوں سے رجوع ہوا گیا ہے اور کچھ فیصلے ایسے ہیں جن پر عدالت سے رجوع ہوا بھی جاسکتا ہے ۔ عدالت نے اپنے فیصلوں کے ذریعہ عدلیہ میں عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کی سمت اہم پیشرفت کی ہے ۔ حکومت کی جانب سے دستوری اور قانونی اداروں پر اپنا تسلط اور غلبہ جمانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کئی گوشوں کا احساس ہے کہ الیکشن کمیشن تک کو حکومت نے اپنا ہمنوا بنالیا ہے ۔ کمیشن آزادی سے نہیں بلکہ حکومت کی مرضی سے کام کر رہا ہے ۔ ایسے میں عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ انتہائی خوش آئند ہے ۔ اس کے ذریعہ حکومت کو من مانی فیصلوں سے روکا جاسکتا ہے اور اہم تقررات میں مشاورت کے عمل کی روایت کو برقرار رکھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے ۔
وبائی امراض کا عروج
ملک بھر میں اور خاص طور پر تلنگانہ ریاست میں ان دنوں وبائی امراض کا عروج ہے ۔ اعضاء شکنی ‘ سردی ‘ بخار وغیرہ میں ہزاروں افراد مبتلا ہو رہے ہیں اور دواخانوں میں مریضوں کا ہجوم بڑ ھ گیا ہے ۔ موسم کی تبدیلی کے اثرات بھی صحت پرمرتب ہو رہے ہیں اور گرما کا بھی عروج ہونے لگا ہے ۔ ایسے میں انسانی طبیعت پر اثرات مرتب ہونا لازمی بات ہے تاہم وبائی امراض کا عروج توقع سے زیادہ ہو رہا ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور ان میں بچے ‘ جوان ‘ بوڑھے سبھی شامل ہیں۔ ڈاکٹرس کے مشورہ کے مطابق مریضوں کو علاج پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ اس کے علاوہ احتیاط خاص طور پر ضروری ہے ۔ موسم کی تبدیلی کے وقت میں جتنا ممکن ہوسکے حفظان صحت کے اصولوں پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کو اپنے طور پر بھی اپنی صحت کی برقراری کے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ جہاں کہیں طبیعت پر اثرات دکھائی دیں فوری ڈاکٹرس سے رجوع ہوں۔ ڈاکٹرس کے مشورے پر عمل کریں اور ادویات کے استعمال سے بھی گریز نہ کریں۔ تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ علاج اور احتیاط ڈاکٹرس کے مشورہ کے مطابق ہو تاکہ صحت پر منفی اثرات مرتب ہونے نہ پائیں۔