سکریٹریٹ مساجد کے انہدام کے بعد وقف بورڈ ہوش میں آیا

,

   

چیف سکریٹری کی بجائے سکریٹری اقلیتی بہبود کو مکتوب، ریکارڈ حکومت کو پیش، مسلمانوں میں بے چینی
’سیاست ‘نے انہدام کو بے نقاب کیا

حیدرآباد: سکریٹریٹ کے احاطہ میں دو مساجد کے انہدام کے بعد تلنگانہ وقف بورڈ ہوش میں آیا ہے۔ روزنامہ سیاست کی جانب سے مساجد کے انہدام سے متعلق رپورٹ کی اشاعت کے بعد تلنگانہ کے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوگئی۔ کئی افراد نے عوامی نمائندوں اور حکومت کی تائید کرنے والی مذہبی و سماجی تنظیموں کے ذمہ داروں سے ربط قائم کیا اور خاموشی پر سوال اٹھائے ۔ وقف بورڈ کے صدرنشین اور چیف اگزیکیٹیو آفیسر سے بھی مختلف گوشوں سے نمائندگی کی گئی۔ دونوں مساجد کو ایک دن قبل شہید کردیا گیا لیکن اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا دعویدار وقف بورڈ خواب غفلت کا شکار رہا۔ سیاست میں خبر کی اشاعت کے بعد جب وقف بورڈ پر دباؤ بڑھنے لگا تو چیف اگزیکیٹیو آفیسر عبدالحمید نے سکریٹری اقلیتی بہبود کو مکتوب روانہ کرکے دونوں مساجد کو منہدم نہ کرنے کی اپیل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مساجد منہدم کردی گئیں اور اسکی نگرانی چیف سکریٹری سومیش کمار کر رہے ہیں لیکن وقف بورڈ نے چیف سکریٹری کی بجائے سکریٹری اقلیتی بہبود کو مکتوب روانہ کیا جو بے فیض ہے۔ مکتوب میں دونوں مساجد کو انہدام سے بچانے کی اپیل کی گئی جبکہ مساجد کو منہدم ہوئے 24 گھنٹے گزر گئے ۔

مکتوب میں کہا گیا کہ نئے سکریٹریٹ کی تعمیر کے سلسلہ میں دو موجودہ مساجد کو منہدم کرنے کے منصوبہ کی اطلاع ملی ہے۔ مسلمانوں میں مساجد کے تحفظ کے سلسلہ میں خدشات پائے جاتے ہیں اور انہدام کی صورت میں مسلمانوں میں ناراضگی پیدا ہوگی اور لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ مکتوب میں کہا گیا کہ مسجد وقف پراپرٹی ہے اور ہمیشہ وقف رہتی ہے۔ اسے منہدم کرنے کی بجائے اس کا تحفظ کیا جانا چاہئے ۔ مکتوب کے ساتھ دونوں مساجد کی تفصیلات سے متعلق گزٹ کی نقل روانہ کی گئی۔ سکریٹری اقلیتی بہبود سے مساجد کے تحفظ کیلئے ضروری کارروائی کی درخواست کی گئی ۔ اسی دوران پتہ چلا کہ چیف سکریٹری اور ڈی جی پی کی نگرانی میں سکریٹریٹ کی دو مساجد اور ایک مندر کی انہدامی کارروائی انجام دی گئی۔ وقف بورڈ کے پاس مسجد ہاشمی کا ریکارڈ موجود ہے جس کے تحت 677 مربع گز اراضی ہے۔ مسجد دفاتر معتمدی جو بڑی مسجد تھی وہ دراصل خواتین کی نمازگاہ تھی جسے مسجد میں تبدیل کیا گیا اور راج شیکھر ریڈی دور حکومت میں 35 لاکھ روپئے محکمہ اقلیتی بہبود سے جاری کئے گئے۔ حکومت کے بجٹ کے علاوہ بعض اہل خیر افراد نے مسجد کیلئے ضروری سامان کا عطیہ دیا تھا ۔ اس طرح تقریباً ایک کروڑ کے خرچ سے مسجد تعمیر کی گئی۔ 31 ڈسمبر 2008 ء کو تعمیر جدید کا سنگ بنیاد مولانا محمد حمید الدین عاقل حسامیؒ نے رکھا تھا جبکہ چیف منسٹر ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی اور اس وقت کے وزیر اقلیتی بہبود محمد علی شبیر مہمان خصوصی تھے۔ 29 رمضان المبارک 9 ستمبر 2010 ء کو مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے تعمیر نو کا رسمی طور پر افتتاح کیا تھا ۔