سیاسی اختلاف میںاقدار پامال

   

میرا بن جائے کوئی یہ میری تقدیر نہیں
میں وہ شیشہ ہوں کہ جس میں کوئی تصویر نہیں
سیاسی جماعتوںاور قائدین میںاختلافات عام بات ہیں۔ ان ہی اختلافات کی بنیاد پر مختلف سیاسی جماعتوںکا قیام عمل میںآتا ہے اور ان ہی اختلافات کی بنیاد پر انتخابات بھی لڑے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے ۔ ہندوستانی سیاست اور جمہوریت کی یہ روایت رہی ہے کہ ہندوستان میں سیاسی مخالفت میں بھی ایک پاس و لحاظ ہوا کرتاتھا ۔ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میںکبھی بھی شخصی تنقیدوں کا سہارا نہیں لیا جاتا تھا اور شخصی ریمارکس نہیں کئے جاتے تھے ۔ سیاسی اختلافات کو سیاست تک ہی محدود رکھا جاتا تھا اور ایک دوسرے کے تعلق سے شخصی احترام لازمی برقرار رکھا جاتا تھا ۔ سیاست سے ہٹ کر اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی اور سبھی یہ اعتراف کرتے تھے کہ نظریاتی اختلافات کے باوجود سبھی سیاستدان اور قائدین ملک و قوم کیلئے کام کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ دنوںمیںیہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی اختلافات کو شخصی عناد اور دشمنی تک کا رنگ دیدیا گیا ہے ۔ فی الحال ہندوستان بھر میںمختلف گوشوں سے شخصی ریمارکس پر تبصرے عام ہوگئے ہیں۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی پر تنقید ہو رہی ہے کہ انہوں نے ملک کے وزیر اعظم کو ’ پنوتی ‘ قرار دیا ہے ۔ وزیر اعظم ہندوستان اور آسٹریلیا کے مابین کرکٹ ورلڈ کپ کا فائنل مقابلہ دیکھنے احمد آباد کے اسٹیڈیم پہونچے تھے ۔ جس طرح ہر مقابلہ میں ہوتا ہے کوئی فاتح ہوتا ہے تو کسی کو شکست ہوتی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ فائنل مقابلہ میں ہماری ٹیم ہندوستان کو شکست ہوگئی ۔ یہ کھیل کا حصہ ہے ۔ تاہم چونکہ ہندوستان بھر میںسیاسی ماحول ہے ملک کی پانچ ریاستوں میںانتخابی عمل چل رہا ہے ۔ آئندہ چند ماہ میں پارلیمانی انتخابات بھی ہونے والے ہیںایسے میں ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے ریمارکس کئے جا رہے ہیں۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی پر الزام ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کو پنوتی قرار دیا ۔ راہول گاندھی کے ان ریمارکس پر بی جے پی اور گودی میڈیا کی جانب سے ہنگامہ کیا جا رہا ہے ۔ راہول گاندھی کو نشانہ بناتے ہوئے وزیر اعظم کی توہین اور ہتک قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی اور گودی میڈیا کا جہاں تک تعلق ہے اس معاملے میں بھی ان کے معیارات دوہرے ہی دکھائی دیتے ہیں۔
یقینی طور پر اگر پنوتی ریمارکس قابل مذمت ہیں تو پھر وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے راہول گاندھی کو نشانہ بناتے ہوئے بیوقوفوں کا سردار قرار دینے والا ریمارک بھی قابل مذمت ہے ۔ اس ملک کے قانون اور دستور کے مطابق کوئی اعلی اور کوئی ادنی نہیں ہوسکتا ۔ عزت ہر ایک کی برابر ہے ۔ ہر ایک کا احترام مساوی ہونا چاہئے ۔ کسی کو کسی پر فوقیت یا ترجیح نہیں دی جاسکتی ۔ اگر کوئی کسی کا پرستار یا مداح ہے تو یہ اس کا اپنا اختیار ہے لیکن یہ اختیار کسی کو نہیں ہوسکتا کہ کسی دوسرے کو توہین یا ہتک کا نشانہ بنایا جائے ۔ بی جے پی نے ہمیشہ ہی مخالفین کو شخصی حملوں کے ذریعہ نشانہ بنایا ہے ۔ خواتین تک کو نہیں بخشا اور ان کی بھی توہین کی گئی ہے ۔ کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی کو پچاس کروڑ کی گرل فرینڈ قرار دیا گیا ۔ جرسی گائے قرار دیا گیا ۔ ان کی بیوگی کا مذاق اڑایا گیا ۔ اس وقت نہ بی جے پی نہ کسی اور تنظیم کے ذمہ دار قائدین نے ایسا کرنے والوں کی سرزنش کی ۔ بلکہ خود بھی مزے لیتے ہوئے ان ریمارکس کا حوالہ دیا کرتے تھے ۔ نازیبا الفاظ اور ناشائستہ زبان کا استعمال بی جے پی قائدین کی جانب سے عام کیا گیا ہے اور مخالفین کو نشانہ بنانے میں روایات اور اقدار کو پامال کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد جب کوئی انہیں نشانہ بناتا ہے تو پھر اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے ۔ اقدار کا حوالہ دیا جاتا ہے اور خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ ملک کا گودی میڈیا بھی اس معاملے ڈوغلے پن کا ثبوت دیتا ہے ۔ ایک معاملے کو تو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور دوسرے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
یہ بات مسلسل محسوس کی جا رہی ہے کہ ہندوستان میں سیاسی اختلاف کا معیار گرتا جار ہا ہے ۔ اس سیاسی مخالفت کو شخصی عناد اور دشمنی کا رنگ دیدیا گیا ہے ۔ کہیںدو مخالفین کی اگر ملاقات ہوجائے تو ایک دوسرے کے تعلق سے جن ناگوار تاثرات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ سیاسی اختلاف بھی ایک حد میں ہونا چاہئے اور اسے زندگی کا حصہ نہیں بنایا جانا چاہئے ۔ کسی کے نقطہ نظر کوتسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس نقطہ نظر کو ہی ختم کردینے کے جذبہ کے ساتھ کام کرنا درست نہیںہوسکتا ۔ ہندوستان کی سیاست کو اس طرح کی روایت سے پاک رکھنا چاہئے ۔ تمام فریقین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ نہ وہ خود کسی دوسروں کو نیچا دکھائیں نہ کسی کو ایسا کرنے کا موقع دیں۔
حماس ۔ اسرائیل جنگ بندی
مسلسل کوششوں کے بعد حماس اور اسرایل کے مابین جنگ بندی پر عمل کا آغاز ہوگیا ہے ۔ قیدیوں و یرغمالیوں کا تبادلہ بھی عمل میں آنے لگا ہے ۔ انتہائی مشکل ترین حالات کا سامنا کرنے والے فلسطینی عوام کیلئے امدادی ساز و سامان بھی غزہ میں پہونچنے لگا ہے ۔ زخمی فلسطینی بچوں اور معمرین و خواتین کیلئے غذا کے علاوہ ادویات بھی دستیاب ہونے لگی ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی اور علامت ہے لیکن ساری دنیا کومحض ان ہی چار دنوںپر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے بلکہ ایک مستقل اور دیرپا جنگ بندی اور امن کیلئے کوششوں کو مزید تیز کردینے کی ضرورت ہے ۔ عالمی طاقتوں کا یہ فریضہ اور ذمہ داری ہے کہ وہ نہتے اور بے بس فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کی نسل کشی کے سلسلہ کو بند کرے ۔ اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کو روکنے دباو ڈالیں۔ جو معصوم فلسطینی بچے وحشیانہ کارروائیوں میںنشانہ بنائے گئے ہیںانہیں طبی امداد اور علاج کی سہولیات فراہم کروائی جائیں۔ اسرائیل کے غاصبانہ اقدامات کو دنیا کے سامنے آشکار کریں نہ کہ ان کا جواز پیش کرنے کی بزدلانہ کوششیں کی جائیں۔ علاقہ کے مسلم ممالک کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اسرائیل اور دوسری عالمی طاقتوںپر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں تاکہ علاقہ میںامن و امان کو یقینی بنایا جائے ۔ فلسطینیوں پر ہونے والے مسلسل مظالم کو بند کروائیں۔ جو تباہی ہوئی ہے اس کا جائزہ لیا جائے اور وہاں از سر نو زندگی کو بحال کرنے پر توجہ دی جائے ۔ اسرائیل ایک ظالم طاقت ہے جو صرف جبر و استبداد کے ذریعہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ اس کے خلاف سبھی کو کمربستہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ نہتے فلسطینیوںپر ہونے والے مظالم پر اگر دنیا خاموش رہے گی تو اسے بھی ان مظالم میںحصہ دار مانا جائے گا ۔