سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء جانِ رحمۃ للعالمین

   

شیخ احمد حسین
فخر رسل تاجدار انبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نورنظر، حضرت خدیجہ الکبریٰ کی لخت جگر سیدہ کائنات حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء ۲۰؍ جمادی الثانی کومکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔ آپؓ کا اسم گرامی فاطمہؓ رکھا گیا جس کے معانی ہیں اولاد اور غلاموں کو جہنم سے چھڑانے والی۔ فاطمہ نام، مبارک سمجھا جاتا تھا اور خیرو برکت کے لئے رکھا جاتا تھا۔جب سیدہ فاطمہ ؓپیدا ہوئیں تو آقائے دو جہاں ﷺکی خدمت میں ایک فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کہ خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ اللہ کی اس کنیز کا نام فاطمہ رکھو کہ اس کو میں نے شرف علم کی بناء پر منفرد بنایا ہے۔ لہذا آپؓ اپنے علم و عمل، دینداری اور حسب و نسب کے لحاظ سے زنان زمانہ سے منفرد تھیں۔ سیدہ ہر قسم کی برائی سے پاک و منزہ تھیں کیونکہ اسی عارفہ ربانی کے دل میں حب دنیا کا گزر ہوا ہی نہیں تھا۔ آپؓ بچپن سے ہی خاموش طبع تھیں۔ آپؓ اپنی خداداد ذہانت اور غیر معمولی عادات کی بناء پر چھوٹی عمر میں مشہور ہوگئی تھیں۔ آپؓ اپنے القاب سیدہ، زہراء، بتول، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، طاہرہ جیسے اوصاف حمیدہ کے لحاظ سے اشرف و افضل تھیں۔ اس لئے آپؓ کو سیدۃ نساء العالمین اورسیدۃ نساء اہل الجنۃ کہا گیا۔ خاتون جنت نے آغاز اسلام کا زمانہ پایا جبکہ مسلمانوں پر کفار کا ظلم و ستم پورے زوروں پر تھا۔ آپؓ نے شعب ابی طالب میں سب کے ساتھ مسکینی میں بھوک و پیاس کی تمام تر تکالیف برداشت کیں۔
حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے لوگ نکاح کے لئے چار چیزیں پیش نظر رکھتے ہیں۔مال و دولت، حسن وجمال، حسب و نسب اور دینداری لیکن تم تقویٰ اور پرہیزگاری کی صفت کو تمام صفتوں پر مقدم رکھو۔ بی بی فاطمہؓ جب سن بلوغت کو پہنچیں تو حضرت ابوبکر صدیق ؓنے نکاح کی خواہش کی حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں فاطمہؓ کے بارے میں امر الہٰی کا منتظر ہوں پھر حضرت عمرؓ نے التماس کی تو انہیں بھی یہی جواب ملا۔ صحابہ کرام کی نظریں اب حضرت علی کرم اللہ وجہ پر تھیں۔ حضرت علیؓ آستانہ نبوت میں مجسمہ سوال بن کر حاضر ہوئے کچھ کہنا چاہا کہہ نہ سکے حضور ﷺ نے پوچھا علیؓ کچھ کہنا چاہتے ہو؟ حضور ﷺنے فرمایا: فاطمہ کی خواستگاری کے لئے آئے ہو؟ گزارش کی: جی ہاں بے شک اسی لئے حاضر ہوا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: مرحبا واھلاً پھر سرور کائنات ﷺ فاطمۃ الزہراء کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ علیؓ آپ کے لئے نکاح کی خواہش لے کر آئے ہیں وہ قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھیں۔ خاموش رہیں چند لمحے حضور ﷺ بیٹی کا چہرہ دیکھتے رہے اور اس خاموشی کو رضامندی قرار دیا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے حضرت علیؓ سے پوچھا تمہارے پاس مہر دینے کے لئے کچھ ہے حضرت علیؓ نے فرمایا میرے پاس ایک تلوار ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے حضور ﷺ نے زرہ بیچنے کا حکم دیا پھر حضور ﷺنے حضرت انسؓ سے فرمایا چھ مہاجرین اور چھ انصار بلا لائو۔ سب حاضر ہوگئے تو آپ ﷺ نے ایک بلیغ خطبہ دیا اور نکاح کردیا اور فرمایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہؓ کا نکاح علیؓ سے کردوں۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت کے مطابق ہم نے فاطمہؓ کی شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھیں۔ حضور سرور کائنات ﷺنے اپنی بیٹی کو جو جہیز دیا وہ ایک قمیض، ایک چادر اوڑھنے کے لئے کالے رنگ کا نرم روؤں کا کمبل، کھجو رکے پتوں سے بنا بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چمڑے کے چار تکئے، آٹا پیسنے کی چکی، تانبے کا بڑا برتن، کپڑے دھونے کے لئے ایک مشکیزہ، مٹی کی صراحی مٹی کے دو آب خورے، زمین پر بچھانے کا چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا۔ سبحان اللہ۔
آج ایک مسلمان کی بیٹی کی شادی فضول رسومات اور بے جا اخراجات کے باعث بوجھ بن گئی ہے ہمارے لئے لازم ہے کہ سیدہ ؓکی زندگی کو لائحہ عمل بنایا جائے۔ ان کی شادی ہر لحاظ سے بہترین اور مثالی ہے اور اعتدال و میانہ روی کی عکاس ہے۔ ازدواجی زندگی میں جب تک گھریلو کام سلیقہ سے انجام نہ پائیں گھر کا نظام درست نہیں رہتا حضرت علیؓ نے امور خانہ داری یوں طے کئے کہ باہر کے کام اور جانوروں کو پانی پلانا اپنے ذمہ لیا اور فاطمۃ الزہراءؓ چکی پیسنے اور آٹا گوندھنے اور دیگر گھریلو امور میں اپنی ساس کی مدد کریں گی۔ حضرت فاطمہ ؓکی چادر میں ۱۲ سے زائد پیوند ہوتے تھے۔ جب بچوں کے سونے کا وقت آتا تو قرآن مجید کی تلاوت فرماتی جاتی تھیں۔ چکی پیستی تو بچوں کو گود میں لے لیتی تھیں۔صبح کے وقت آنحضور ﷺمسجد میں تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ کی چکی چلانے کی آواز کانوں میں آتی تھی۔ حضور ﷺبے اختیار ہوکر دعامانگتے تھے کہ اے باری تعالیٰ! فاطمہ کو اس ریاضت اور قناعت کا اجر دے اور حالت فقر میں ثابت قدم رکھنا۔
حضرت سیدہ گھر کا کام خود سرانجام دیتی تھیں۔ کوئی خادمہ اور کنیز نہ تھی۔ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے۔ جھاڑو دیتے برتن مانجھتے چولہا سلگھاتے سلگھاتے کپڑے گرد آلود اور سیاہ ہوجاتے۔ حضرت علیؓ چاہتے تھے کوئی کنیز مل جائے۔ کسی لڑائی سے حضور ﷺ کے پاس کچھ غلام آئے حضرت فاطمہؓ آستانہ رسالت میں حاضر ہوئیں لیکن حضور ﷺ تشریف فرما نہ تھے۔ حضرت عائشہؓ سے اظہار مقصد کرکے چلی آئیں جب حضور ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓنے بتایا تو آپ ﷺ بیٹی کے گھر تشریف لائے۔ پوچھا بیٹی کیا کام ہے؟ خود خاموش رہیں۔ حضرت علی نے عرض کیا: حضور ﷺچکی پیستے پیستے فاطمہ کے ہاتھوں میں آبلے پڑگئے ہیں قیدیوں میں سے ایک ہمیں بھی غلام عطا فرمادیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں کیوں نہ ایسی چیز بتادوں جو خادم سے بہتر ہے۔ جب تم سونے لگو تو ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ الحمدللہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ جب حضور پاک ﷺکے پاس تشریف لاتیں تو حضور ﷺکھڑے ہوجاتے اور ان کی پیشانی چومتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ کے پاس جاتے اور واپسی میں سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لاتے۔