سید نظیر علی عدیل کی نعتیہ شاعری

   

رفیعہ نوشین
شاعری جذبات کی ترجمانی کا نام ہے ۔ ادب کی کوئی صنف جذبات کی ترجمانی میں شاعری کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ شاعری تاثیر و تاثر کے اعتبار سے آتش کدہ بھی ہوتی ہے اور گل کدہ بھی ۔
اصناف شاعری میں نعت گوئی ہمیشہ سے مقبول و معروف رہی ۔ تقریباً ہر دیوان اور مجموعہ کلام میں نعتیہ اشعار مل ہی جاتے ہیں۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرامؓ نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک بھی جاری و ساری ہے۔
مومن کی زندگی کا شب و روز کا اصل محور حبیب کبریا کا وہ حسین ترین اسوہ ہے جس کے حسین ہونے پر خود رب کائنات لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ کا مہر ثبت کیا، جس کے اعلیٰ ہونے پر خود رب کائنات نے انک لعلی خلق عظیم کی سند دی ۔ خصوصاً وہ قلوب جن میں عشق رسالتؐ کی انگیٹھی ایسی جولانی پر ہو تو کیا کہنے ! بلا مبالغہ ایسی ہستیوں میں سے ایک نام جن کے تذکرے کے بغیر دکن کے شعراء کا شجرہ مکمل نہیں ہوسکتا وہ حضرت سید نظیر علی عدیل ہیں جن کے شاعرانہ لب و لہجہ سے مزین نعت گوئی تار یخ کا انمٹ حصہ ہے ۔
سید نظیر علی عدیل 27 جولائی 1925 ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔ شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا ۔ چنانچہ تعلیم کی تکمیل اور حصول ملازمت کے بعد حیدرآباد کے نامور استاد سخن حضرت صفی اورنگ آبادی کے حلقہ تلامذہ میں داخل ہوکر عدیل نے نہ صرف اکتساب فن کیا بلکہ اپنے استاد سے فنی رموز و نکات سیکھے اور ان کے انتقال کے بعد خود مسند استادی پر فائز ہو ئے اور جانشین صفی اورنگ آبادی کہلائے ۔ آپ کا شمار دکن کے نامور اساتذہ سخن میں ہوتا تھا اور ان کا حلقہ تلامذہ بھی کافی وسیع تھا ۔ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنا مذہبی کلام ترتیب دے دیا تھا اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا مجموعہ حمد و نعت ’’نشاط الثانیہ ‘‘ منظر عام پر آئے ۔ ان کی یہ خواہش ان کے دور حیات میں تکمیل نہ پاسکی لیکن 2001 ء میں ان کے بڑے فرزند دلبند موجودہ دور کے نامور استاد سخن شاعر ڈاکٹر فاروق شکیل نے ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے ان کا مجموعہ کلام ’’نشاط الثانیہ‘‘ مرتب کیا۔ اس مجموعہ میں حمد، مناجات اور نعتیں شامل ہیں ۔ شاعر انور سلیم نے اس مجموعہ کلام کی اشاعت پر بہت ہی خوبصورت دوہا لکھا تھا ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
کہت سلیم عدیل کا پریم نبیﷺ سے اتنا گہرا
اس لئے ہر ورق ’’ نشاط ثانیہ‘‘ کا ہے سنہرا
(انور سلیم)
حضرت سید نظیر علی عدیل ایک پرگو اور قادر الکلام شاعر تھے اور سرور کونین فخر دارینؐ کی بارگاہ میں ایک محب صادق کی طرح سر نیاز کو جھکایا ہے اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی فکری توانائیوں کا مرقع بناکر نعت کہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نظیر علی عدیل کا نام سنتے ہی ذہن میں پدم شری عزیز احمد خان وارثی کی آواز میں HMV کمپنی ممبئی کی جانب سے ریکارڈ کی گئی قوالیاں گونجنے لگتی ہیں۔ جیسے
* ندائے ارض و سما لا الہ الا للہ (حمد)
* کب تک فقط اُمید میں ہم عمر گزاریں۔ ائے خالق عالم (مناجات)
* مانگنے والے مانگ خدا سے (مناجات)
* قیامت ا ٹھانے کا مقصد ہو کچھ بھی مگر دیکھنے کی قیامت رہے گی۔ (نعت)
یہ گراموفون ریکارڈ عوام میں آج بھی مقبول ہیں ۔
عدیل صاحب نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا حال کس خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے کہ
پہاڑوں پہ مکہ کی تھی روشنی سی
فضاؤں میں تھی ایک نئی دلکشی سی
حلیمہ کے دل میں تھی اک سنسنی سی
رُخ آمنہ پر تھی ایک زندگی سی
مُطلب کے پو تے چلے آرہے ہیں
فرشتے انہیں دیکھنے آرہے ہیں
حضرت عدیل ’’سراپا نگاری ‘‘ میں بھی کمال رکھتے تھے ۔ سراپائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں انہوں نے حضور اقدس ﷺ کے حسن و جمال کا جو تذکرہ کیا ہے ، اس کا اندازہ آپ کے مندرجہ ذیل اشعار سے ہوگا ملاحظہ فرمائیں۔
چہرہ وہ آفتاب کہ دیدار ہی محال
دیکھا سنبھل سنبھل کے تو غش کھا گئی نظر
گیسوو تاب دار سیاہی لئے ہوئے
جیسے اندھیری رات ہو ہیروں کے سیج پر
رُخسار جیسے نور میں ڈوبے ہوئے گلاب
صدقے ہو جن پہ پھول کھلاتی ہوئی سحر
بادصبا نے عمر میں دیکھے نہ تھے کبھی
برسائے پھول ایک تبسم نے اس قدر
رسول کائنات ، فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم نسل انسانی کے لئے نمونہ کاملہ اور اسوہ حسنہ ہیں جس کی اتباع ہر مسلمان کے لئے خوش نصیبی کی کنجی ہے ۔ حضرت عدیل نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت کے خاص گوشوں کی کس عمدگی سے موضوع سخن بنایا ہے ۔ غور کریں۔
خود اندازہ کرلو ہیں کیسے ﷺ
دو عالم بنے ہیں برائے ﷺ
گر بزرگی کا تعین ہوسکے بعد از خدا
دونوں عالم میں نہیں کوئی بزرگ ان کے سوا
دل میں اتر نہ جائے کیوں نغمہ حجازی
سُر اس میں ہیں ازل کے آواز سرمدی ہے
کیوں تعجب ہے زمانہ ہے اگر شیدائی
جبکہ خلاق ہی خود آپ ﷺ کا شیدائی ہے
ایسے فاقوں کی کسی کو بھی خبر ہونے نہ دی
یہ بھی اک تھا شہ کونین کے کردار کا رخ
سرور کونین ﷺ سے حضرت عدیل کی محبت والہانہ تھی ۔ وہ جب بھی نعت سناتے اشک بار ہوجاتے تھے جس کا ذکر انہوں نے خود اپنے ایک شعر میں یوں کیا کہ
آیا عدیل جب بھی ہونٹوں پہ نام ان کا
کیا جانے چپکے چپکے کیوں آنکھ ڈبڈبائی
اُن کے وجود میں عشق رسول ﷺ کچھ ایسا سرایت کرچکا تھا کہ ان کی فکر بھی سرشار ہوگئی تھی ۔ فرماتے ہیں ۔
میں اپنے گناہوں سے منکر نہیں ہوں
مجھے یاد ہے میں نے جو بھی کیا ہے
جو میں نے کیا ہے وہ تو جانتا ہے
پھر اس کے اعادہ سے کیا فائدہ ہے
اب اس پر بھی تیری خوشی ہے الٰہی
یہیں پو چھ لے مجھ سے جو پوچھنا ہے
وہاں تو رہوں گا میں خدمت میں ان کی
وہاں کب مجھے اتنی فرصت رہے گی
معجزات نبی ﷺ بھی نعت کا اہم موضوع رہا ہے جس میں معجزہ قرآن ، معجزہ شق القمر۔ کنکریوں کا کلمہ پڑھنا۔ حیوانات کا گفتگو کرنا ۔ واقعہ معراج وغیرہ شامل ہیں ۔ حضرت عدیل نے دلکش بیان سے کس طرح ان معجزات کا احاطہ اپنی شاعری میں کیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
معجزوں میں یہ بھی ہے اک معجزہ سرکار ﷺ کا
پاگئے ہیں قوت گویائی پتھر دیکھنا
خدا کی شان وہ پل بھر میں جا کے آگئے واپس
زمین تا عرش تو صدیوں کا رستہ ہے طوالت میں
شق ہونے کا قمر کو صدمہ نہیں ہے کوئی
انگلی کی زد سے ایسی لذت اسے ملی ہے
عدیل کی نعتوں میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اچھوتا پن بھی نظر آتا ہے ۔ جوان کی فکر کی انفرادیت کی غمازی کرتا ہے۔
رکھا گیا ہے اس لئے کعبہ غلاف میں
دیوار و در پہ عکس ہے سرکارﷺ آپ کا
غلاف کعبہ چاہے کسی وجہ سے رکھا گیا ہو لیکن عدیل نے اسے بھی ایک اچھوتا خیال دے دیا ہے اور غلاف کعبہ کی ایک نئے خیال میں ڈھال کر شعر کو اچھوتا پن دے دیا ہے۔
ہجرت کا غم عیاں ہے غلاف سیاہ سے
مکہ میں کعبہ ہے بڑے جبر و کراہ سے
ذات رسالت کی حقیقی عظمت کو واضح کرنے کے لئے کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ
عظمت کی انتہا کا یہ پہلا مقام ہے
عرش بریں پہ ثبت محمد ﷺ کا نام ہے
اسے دکھانا تھا وحدت کا دوسرا پہلو
جواب اس لئے کوئی نہ تھا محمد ﷺ کا
نعت گوئی فراستی ذمہ داری والی ایک انتہائی دشوار گزار صنف سخن ہے۔ بہت احتیاط اور آداب کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے بقول کسے۔
باخدا دیوانہ باشد یا محمد ﷺ ہوشیار
عدیل نے اپنی نعتوں میں اپنے احساسات کو بہت احتیاط سے پیش کیا ہے ۔ ان کی نعتیں ان کی قلبی و روحانی احساسات کی ترجمان ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے محبوب کو کئی القاب و نام عطا کئے ہیں ۔ جنہیں عدیل نے بڑے سلیقے سے اپنی نعتوں میں سجایا ہے ۔
کب کیا کہہ کر فقط یٰسین و طہٰ اکتفا
آپﷺ کو اللہ نے قرآن و فرقان بھی کہا
اور ایک جگہ فرماتے ہیں :
آپ کو کہا طہٰ آپﷺ کو کہا یسین
لفظ دونوں بھاری ہیں ان پہ اس لئے مد ہے
دنیا میں دو شہر دو باتوں کی وجہ سے دنیا کے دیگر شہروں پر فوقیت رکھتے ہیں ۔ شہر مکہ جہاں خانہ کعبہ موجود ہے اور شہر مدینہ جہاں آپ ﷺ کا روضہ مبارک موجود ہے اور آپ اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں آرام فرما رہے ہیں ۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا سفر کر کے خانہ کعبہ کا دیدار کریں اور آپ ﷺ کے در اقدس پر حاضری دے کر اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔ چنانچہ عدیل نے بھی کعبہ ، مدینہ ، زیارت رسولؐ، کوچہ طیبہؐ وغیرہ کو اپنی نعتوں کا موضوع بنایا ہے ۔
رہے گا سلسلہ یہ آخری انسان کے جینے تک
پہنچنا بام پر ہو تو پہنچنا تا ہے وہ زینے تک
تمہارے نام پر جانے والا کعبے کو
وہاں سے والہانہ دوڑتا ہے پھر مدینہ کو
خدا کی شان کہ طیبہ کی ایک تنگ گلی
پناہ گاہ ہے دنیا کے بے پناہوں کی
کعبے کے گرد پھرنے سے کچھ فائدہ نہیں
لازم ہے حج کے ساتھ زیارت رسولﷺ کی
یوں تو ہیں کئی منظر دل پذیر دنیا میں
دیکھنے کے قابل بس سبز سبز گنبد ہے
عدیل نے غزلوں کی طرح نعتوں میں بھی نئی زمینیں نکالی ہیں اور یہ ان کی قادر الکلامی کا کمال ہے کہ کسی بھی نعت میں صرف قافیہ پیمائی نظر نہیں آتی۔
قرآن بھرا ہوا ہے ثنائے رسول سے
پھر بھی نہ مانے کوئی اب تو اس کا کیا علاج
جس کو ذرا رسولﷺ سے حاصل ہوا ہے ربط
اس کا خدا کے ساتھ بڑے سے بڑ ا ہے ربط
ممکن ہے ایسا کب کسی انسان کا لحاظ
جیسا تھا سب کو عرش کے مہمان کا لحاظ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت سے اتنی محبت تھی کہ انہوں نے خدائے برتر سے امت کو بخشوانے کا ذمہ لیا اور ان کی شفاعت کا اختیار بھی ۔ عدیل نے اس حدیث کا ذکر بڑی ندرت کے ساتھ اپنے اشعار میں کیا ہے ۔
محشر میں دو کے ہاتھ میں ہے عفو و مغفرت
اک تو خدائے پاک ہے خود یا ہیں مصطفیﷺ
جتنے بھی اللہ کے نبی ہیں حق شفاعت ان کو نہیں ہیں
صرف وہی ہیں شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم
کیسی یہ ان کی شان شفاعت ہے دیکھیئے
امت پر اُمڈی اُمڈی سی رحمت ہے دیکھیئے
مرنے کے بعد کہتے ہیں مرحوم اس لئے
جنت میں جانے والی ہے امت رسول ﷺ کی
نعتیہ کلام کے معنوی قدر و قیمت کا دارومدار اس کے مضمون پر ہوتا ہے ۔ لہذا سید نظیر علی عدیل کے نعتیہ مجموعہ کلام ’’نشاط الثانیہ ‘‘ کی تجزیاتی مطالعہ سے یہ بات صاف عیاں ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے نعتیہ کلام سے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی سعی کی ہے کہ اللہ کے بعد صرف اور صرف حضور اکرمؐ کی ذات گرامی ہی کائنات کی مرکزی مطاع ذات ہے اس لئے آپؐ کی نعتوں میں عشق محمدیؐ کا اظہار ، حضور اکرم ﷺ کی ذات ، آپؐ کی صفات ، آپؐ کی سیرت ، آپؐ کی سنتوں اور آپ کے خاندان اور صحابہ کرامؓ سے محبت کا اظہار صاف دکھائی دیتا ہے۔
لہذا آپ کے نعتیہ کلام کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عدیل کی نعت گوئی کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی سیرت اور ان کی تعلیمات کو عام کرنا اور حصول ثواب و برکت کا موجب بننا تھا اور وہ اس میں کامیاب رہے کیونکہ عاشقان رسول نے ان کے اس نعتیہ مجموعہ کلام کو خوب سراہا اور اس سے مستفید بھی ہوئے۔
و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین