سی اے اے اور این آر سی انسانیت، فطری قوانین کے اصول کے خلاف ہیں، طلبہ و طالبات کی جد وجہد کثیر التعداد ورثہ کو ایک سیکولر آئین میں تبدیل کردے گی: ڈی راجا رام یادو ٹی آر ایس قائد

,

   

حیدرآباد: بی جے پی حکومت مذہب کے نام پر، ذات پات کے نام پرملک کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولیس کی بربریت اور طلبہ کا جد و جہد پر ایک سیکولر آئین میں تبدیل کردے گی۔ ایک طالبہ نے پولیس کو گلاب کا پھول دے کر سوشل میڈیا پر مشہور ہوگئی ہیں۔ یہ لڑکی تاریخ کی طالبہ ہے۔ اس کی عمر 21سال بتائی گئی۔ملک کے اکثر ریاستیں بالخصوص آسام، شمالی مشرق سی اے اے کے خلاف ہے۔ ان نئے قوانین کے خلاف ملک کی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے علاوہ بیرون ملک یونیورسٹی آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی بھی اس کے خلاف ہیں۔

سی اے اے اور این آر سی کو لے کر پورے ملک میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ قانون انسانیت اور فطرت کے خلاف ہے۔ اسے ختم کیا جانا چاہئے۔ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع جہاں پورے ملک کے لوگ کسی قانون کے خلاف آواز اٹھائے ہیں۔ مودی اور امیت شاہ دوسری مرتبہ برسراقتدار پرآنے کے بعد ملک کی معیشت، تقسیم سیاست اور آئینی سازشوں کے خلاف نئے قوانین ترمیم کئے ہیں۔ سی اے اے بل پر بحث کے دوران امیت شاہ نے کہا تھا کہ این آر سی پورے ملک میں نافذ کیا جائے گا۔ 1955کا ہندوستانی شہریت ایکٹ دنیا کے تمام ممالک میں شہریت ایکٹ سے ملتا جلتا ہے۔ اس سے ہندوستان میں پیدا ہونے والے شہری کی قدرتی طور پر ایک شہری کے طورپر پہچانا جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد 1971 ء بنگلہ دیش کے مہاجرین نئے ملک کی تشکیل دینے کا مطالبہ کئے ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش کی تشکیل کے بعد آسام کی بنگلہ دیش سے نقل مکانی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے لئے طلبہ نے آسام میں ان مہاجرین کے لئے بڑا احتجا ج بھی کیا تھا۔ اس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی نے ایک معاہدہ پر دستخط کئے جس کے تحت حکومت ہند بنگلہ دیشی تارکین وطن کوآسام جلاو طن کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔2013 میں سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں مداخلت کی اور این آرسی شہریت کے قومی اندراج کو آسام میں نافذ کیا گیا۔ آسام میں این آر سی میں 19 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن ہیں تو ان میں 15لاکھ ہندو ہیں۔ این پی آر اور این آر سی غریب، بے گھر، ووٹ نہ دینے والے خانہ بدوش،مخنث، دلت، آدیواسی او رغریب مسلمانوں کو پریشان کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

مودی حکومت کے بعض قوانین سے صرف غریب افراد پریشان ہوتے ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد این آر سی کے ایک واضح مثال ہے۔ مودی حکومت این آر سی، این پی آر کے ذریعہ تقسیم کرو، حکومت کرو (Divide & Rule) کی پالیسی پر عمل کررہی ہے۔ سی اے اے دیگر ممالک کے مہاجرین کو ہندوستانی شہریت مل جاتی ہے۔ دشمن ممالک اپنے خفیہ ایجنٹس بناکر ہندوستان میں بھیج سکتے ہیں جس سے ملک کی سلامتی کو نقصان ہوگا۔ یہ قانون ایٹمی بم سے زیادہ نقصاندہ ہے۔ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی ملک کیلئے بڑی پریشان کن ہیں۔آئنی اداروں اور عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آر ایس ایس او رمودی حکومت کا منصوبہ ہے کہ 2024ء میں وفاقی نظام کوختم کرے اور صدارتی حکومت تشکیل دیں۔اگر ایسا ہوتا ہے تو علاقائی جماعتیں جیسے ٹی آر ایس، بی ایس پی، این سی پی، ٹی ڈی پی، جے ڈی یو، ٹی ایم سی، ڈی ایم کے، ایس پی، ایم آئی ایم جیسی سیاسی پارٹیوں کو سیاسی نقشہ سے مٹ جائے گا۔ انگریزوں نے اس ملک میں تقسیم اور حکمرانی کے اصول کو نافذ کیا۔ ہٹلر او رموسولیتی نسل کشی کے راستہ پر ہندوستان بھی شامل ہوگیا ہے۔ہٹلر نے 60ملین یہودیوں کا قتل عام کیا تھا۔ آر ایس ایس کے گولوالکر نے ہٹلر کی حمایت کی تھی۔ بی جے پی اور آر ایس ایس گولوالکر اور ساورکر کو مثالی شخصیت تسلیم کرتے ہیں۔جبکہ گولوالکر اور ساور کر وحشیت اندازی پر یقین رکھتے ہیں۔ سی اے اے اور این آر سی ملک کے طلبہ او رنوجوان حزب کی جدوجہد کہاں تک رنگ لاتی ہے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ آر ایس ایس کے خلاف یہ جدو جہد ملک کے کثیرالثقافتی، سیکولر او رسیکولر آئین او رجمہوری نظام کے دفاع کی جدو جہد میں تبدیل ہوچکی ہے۔