سی اے اے مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو ترجیح دینے کی وجہہ سے غیر ائینی ہے۔ جسٹس گوپال گوڑ

,

   

نئی دہلی۔عدالت عظمیٰ کے سابق جج جسٹس وی گوپال گوڑ نے 19مارچ کے روز خیال ظاہر کیاکہ”ایس آر بومائی کے معاملہ میں سنائے گئے 1994میں سپریم کورٹ کی ائینی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہاکہ مذہب کی بنیاد پر کوئی بھی ریاست یا پارلیمنٹ قانون نافذ نہیں کرسکتا ہے۔

میرے بموجب سی اے اے مذہب کی بنیاد پر افراد کو ترجیح دینے کا معاملہ ہے اور بومائی کے بموجب یہ غیر ائینی ہے“۔

سینئر وکیل ڈاکٹر کے ایس چوہان کے تحریر کردہ ”شہریت‘ حقوق اور ائینی حدود“ پر لکھی ہوئی کتاب کی رسم اجرائی کے موقع پر وہ بات کررہے تھے۔

ا س پروگرام میں سابق نائب صدر جمہوریہ ہندحامد انصاری بھی شریک تھے۔انہوں نے آسام کی صورتحال کی طرف اشارہ کیاجہاں پر این آر سی کی مشق2019میں شروع کی گئی ہے اور وہ وہاں پر حقائق سے آگاہی کمیٹی کے چیرمن کے طورپر گئے تھے۔

انہوں نے کہاکہ”سالوں قبل ہجرت کے بعد یہاں پر ائے لوگ‘ سالوں سے یہ پر مقیم ہیں وہ آج اپنی شہریت ثابت کرنے سے قاصر ہیں“۔

این آرسی این پی آر کسی فرد کو یہ اختیار دیتا ہے کہ ہندوستان میں پہلے سے رہنے والے فرد کے بنیادی حقوق کے تعین کرے۔

جبکہ وہ فردکوئی نہیں ہے‘ جو مذکورہ فرد کے ناموں‘ پیدائش اور موت کا مذکورہ ایکٹ کے تحت اندراج کرے جس کو تحقیقات کے لئے تیار کیاگیاہے۔

یہ ان لوگوں کی حالت زار ہے جن کے بارے میں شہریت کا تعین کیاجارہا ہے۔انہوں نے زورد ے کر کہاکہ”یہ وہ فرد ہے جس کو اپنا دعوی قائم کرنا ہوگا‘ یہ وہ فرد ہے جس کو اپنی پیدائش کی سند پیش کرنا ہوگا‘ یہ وہ جس کو اپنے والدین میں سے کسی ایک کے اس ملک میں پیدا ہونے کی بات کو ثابت کرنا ہوگا‘ اور عشروں او ردہائیوں کے بعد یہ سب کرنا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں پر آبادی کا 50فیصد حصہ ناخواندہ ہے اور کوئی ریکارڈ نہیں رکھتا ہے“۔

انہوں نے اپنی بات کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ ”جمہوری ہندوستان کے 70سالوں کے بعد‘ آپ مذکورہ قانون میں ترمیم لا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دیگر ممالک کے افراد جس کو ہراسانی پیش ائی اور یہاں پر آکر رہ رہے ہیں انہیں شہری تسلیم کیاجائے گا‘ مگر ہندوستانی نژاد افراد کو سری لنکا وغیرہ میں رہ رہے ہیں انہیں شہریت کا حق نہیں دیاجارہا ہے“۔

انہوں نے کہاکہ ”اس سے ایک ہی مذہب متاثر نہیں ہے‘ مذکورہ قومی راجسٹرار برائے شہریت مذہب سے بالاتر ہوکر ہر فرد پر لاگو ہوتا ہے‘ ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہئے“۔

انہوں نے پرزور انداز میں کہاکہ مذکورہ کسان ہوں یاعورتیں یا کوئی اور طبقہ آیا آسام میں‘ مذکورہ شمال مشرقی ہندوستان یا ملک کے کسی بھی حصہ میں‘ مذہب سے بالاتر ہوکر اگر لوگوں کو اپنی شہریت ثابت کرنا پڑے گاتو وہ ریاست سے محروم ہوجائیں گے

اس کے نتیجے میں ان کے انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی ہوگی۔

جسٹس گوڑا نے موجود حالات کو ایسا وقت قراردیا ہے جس میں ”ملک کی عوام کو بڑے بحران کا سامنا ہے اور قانون کی بالادستی طاق پر ہے اور شہروں کے حقوق کے مسائل بہت زیاد ہ ہیں“