شرافت ڈھونڈنے نکلے ہو ایوان سیاست میں

,

   

راجیہ سبھا ارکان کی معطلی … وینکیا نائیڈو کا استعمال
اومی کرون ویرینٹ کی ملک میں دہشت
ممتا بنرجی کانگریس کے خلاف … کس کے اشارہ پر

رشیدالدین
عدلیہ ، عاملہ اور مقننہ کو جمہوریت کے ستون کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک بھی ستون کمزور ہو تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہونا یقینی ہے۔ مقننہ میں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کا شمار ہوتا ہے جہاں عوام کے حق میں قانون سازی کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کا احترام عوام کی نظروں میں اس لئے بھی زیادہ ہے کیونکہ اس میں وہ عظیم ہستیاں رہ چکی ہیں جنہوں نے نہ صرف ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی بلکہ دستور اور جمہوریت کے اصول مدون کئے۔ قانون ساز اداروں کے ارکان میں جب تک عوام کی خدمت کا جذبہ رہا ، اس وقت تک پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کو عوام قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ جب سے سیاسی جماعتوں نے مفادات کی تکمیل کیلئے ان اداروں کا استعمال کرتے ہوئے من مانی فیصلے عوام پر مسلط کرنا شروع کردیا ، وہاں سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوگیا۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی برسر اقتدار پارٹی کے پاور سنٹرس میں تبدیل ہوگئے اور اپوزیشن کی آواز کی سنوائی ختم ہوگئی۔ قانون ساز ادارے اپوزیشن کے بغیر نامکمل تصور کئے جاتے ہیں کیونکہ اپوزیشن کے تعمیری رویہ سے جمہوریت مستحکم ہوگی۔ پارلیمنٹ ہو یا اسمبلی اپوزیشن کا رول واچ ڈاگ کی طرح ہوتا ہے جو حکومت کی خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سدھار کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اپوزیشن کا کام عوامی مسائل کو پیش کرنا ہوتا ہے لیکن بدلتے سیاسی اقدار میں پارلیمنٹ اور اسمبلی میں عوام کی آواز سننے کیلئے حکومت تیار دکھائی نہیں دیتی۔ گزشتہ چند برسوں میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں صرف اکثریت کی بنیاد پر قانون سازی کا رواج عام ہوچکا ہے ۔ اپوزیشن کے غیاب میں مباحث کے بغیر ہی کئی اہم بلز کو منظوری دیدی گئی ۔ مختلف مسائل پر اپوزیشن کا ہنگامہ اور کسی کارروائی کے بغیر اجلاس کا التواء روز کا معمول بن چکا ہے ۔ جب پارلیمنٹ میں عوام کی آواز کی سماعت نہیں ہوگی تو پھر لوک سبھا اور راجیہ سبھا کا اجلاس طلب کر کے وقت اور پیسے کے زیاں کی کیا ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن جاری ہے لیکن گزشتہ اجلاس کی طرح اپوزیشن کا ہنگامہ روز کا معمول ہے ۔ اجلاس کے پہلے ہی دن حکومت نے زرعی قوانین کی تنسیخ کا قانون منظور کرلیا اور چند گھنٹوں میں صدر جمہوریہ رامناتھ کووند نے بھی اپنی مہر لگادی۔ کسانوں کے دباؤ کے آگے حکومت کو جھکنا پڑا لیکن صرف قوانین کی واپسی کسانوں کو مطمئن نہ کرسکی۔ کسان مزید مطالبات کی قبولیت تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے 12 ارکان کی معطلی نے تعطل پیدا کردیا ہے ۔ صدرنشین ایم وینکیا نائیڈو معطلی ختم کرنے تیار نہیں ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ مانسون سیشن کے ہنگامہ پر جاریہ سرمائی سیشن میں کارروائی کی گئی ہے۔ اپوزیشن ارکان نے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کیا تھا ۔ اب جبکہ حکومت نے بلز کو نہ صرف واپس لے لیا بلکہ وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے معذرت خواہی کرلی تو پھر ارکان کے خلاف کارروائی کا جواز باقی کہاں رہے گا ۔ گزشتہ اجلاس کے ہنگامہ پر آئندہ اجلاس میں کارروائی دراصل طئے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ حکومت خود ہی ایوان کی کارروائی چلانے اور عوامی مسائل پر مباحث میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی ۔ اپوزیشن کے مطالبہ کے باوجود صدرنشین وینکیا نائیڈو کا ہٹ دھرمی کا رویہ راجیہ سبھا کی روایات کے خلاف ہے۔ لوک سبھا کے اسپیکر ہوں یا راجیہ سبھا کے صدرنشین ان کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہوتا اورانتخاب کے بعد وہ اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ اسپیکر اور صدرنشین غیر سیاسی اور غیر جانبدار عہدے ہیں لیکن افسوس کہ برسر اقتدار پارٹیوں نے ان عہدوں کا سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرتے ہوئے نہ صرف عہدوں بلکہ ایوان کے وقار کو متاثر کردیا ہے ۔ صدرنشین راجیہ سبھا ملک کے نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز ہیں ،لہذا ایوان میں غیر جانبداری کے ذریعہ ایک طرف راجیہ سبھا تو دوسری طرف نائب صدر جمہوریہ کے عہدے کی شان میں اضافہ کا بہترین موقع ہے ۔ وینکیا نائیڈو نے 12 اپوزیشن ارکان کی معطلی کے مسئلہ پر سخت گیر موقف کے ذریعہ مسئلہ کو پارٹی کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی ہے جس سے بی جے پی کے نقطہ نظر کو تقویت حاصل ہوگی۔ زرعی قوانین کو ملک کے مفادات کے خلاف تسلیم کرتے ہوئے مودی حکومت نے منسوخ کردیا تو پھر ایسے قوانین کے خلاف احتجاج پر کارروائی کا کیا جواز ہے۔ معطل شدہ ارکان کوئی مجرم تھوڑی ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ ہوسکے۔ ملک میں مجرمین کھلے عام گھوم رہے ہیں اور انہیں ہتھکڑی لگانے والا کوئی نہیں۔ اگر صدرنشین صرف اپنی انا کی تسکین کیلئے اپوزیشن ارکان کی معطلی ختم کرنے تیار نہیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پارلیمنٹ اصول اور ضوابط کے تحت نہیں بلکہ برسر اقتدار پارٹی کے اشاروں پر چلائی جارہی ہے ۔ عوامی نمائندے مسائل کو پارلیمنٹ میں نہیں تو پھر کہاں پیش کریں گے ۔ پارلیمنٹ قواعد کا حوالہ دے کر حکومت کی تائید کرنے سے اپوزیشن کی آواز کو دبایا جاسکتا ہے لیکن ایوان کا وقار عوام کی نظروں میں گھٹ جائے گا ۔ دو اہم دستوری عہدوں پر فائز رہتے ہوئے وینکیا نائیڈو کو غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ پارلیمانی روایات کی پاسداری ہوسکے۔
ملک کو کورونا وائرس سے ابھی تک مکمل نجات نہیں ملی کہ اچانک ایک اور مہلک ویرینٹ اومی کرون نے دہشت کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ جنوبی افریقہ سے نکلنے والے اس ویرینٹ نے ایک ہفتہ میں 30 سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ویرینٹ کی اس بے قابو رفتار سے دنیا بھر میں ہلچل پائی جاتی ہے۔ اومی کرون مکمل طور پر نہ سہی لیکن اس نے ہندوستان پر دستک دیتے ہوئے اپنی آمد کا اشارہ دیا ہے۔ یہ ویرینٹ کورونا سے 6 گنا زیادہ طاقتور بتایا جاتا ہے ۔ اومی کرون کی وجوہات ، علاج اور امکانی متاثرین کے بارے میں سائنسداں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں اور صرف احتیاطی تدابیر کا مشورہ دیتے ہوئے عوام کو مطمئن کیاجارہا ہے ۔ ہندوستان کورونا کی دونوں لہر سے بری طرح متاثر ہوا تھا اور مرکزی حکومت کی ناکامی کے نتیجہ میں جانی نقصانات میں اضافہ ہوا۔ اب جبکہ ایک اور خطرناک ویرینٹ ہندوستان پر دستک دے چکا ہے لیکن حکومت نے ابھی تک ہنگامی منصوبہ تیار نہیںکیا۔ صرف ایرپورٹس پر بین الاقوامی فلائٹس کے ذریعہ آنے والے مسافرین پر نظر رکھنا کافی نہیں ہوگا۔ اومی کرون ویرینٹ کا پتہ چلانے کے لئے ابھی تک کوئی ٹسٹ ایجاد نہیں ہوا ہے۔ کورونا کا پتہ چلانے کیلئے موجودہ آر ٹی پی سی آر ٹسٹ کے ذریعہ اومی کرون کی جانچ کی جارہی ہے۔ قبل اس کے کہ ویرینٹ ملک کی تمام ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے ، حکومت کو ہنگامی منصوبہ تیار کرنا ہوگا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ کورونا کی لہر بھی پارلیمنٹ سیشن کے دوران ہی عروج پر تھی اور اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا تھا ۔ اب جبکہ پارلیمنٹ کا مانسون سیشن جاری ہے ، اومی کرون کی دستک سے حکومت کو فوری چوکسی اختیار کرنی ہوگی ورنہ کوئی تساہل یا غفلت بھاری نقصان کا سبب بن سکتی ہے ۔ نقصان کے بعد افسوس کرنے سے بہتر ہے کہ وقت سے پہلے احتیاط کریں۔ اسی دوران چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی ملک میں مخالف کانگریس مہم پر نکل چکی ہیں۔ کل تک کانگریس پارٹی اور سونیا گاندھی کی تائید کرنے والی ممتا بنرجی یو پی اے کے وجود سے انکار کر رہی ہیں۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کو شکست دینے کے بعد ممتا بنرجی کے تیور اچانک کیوں تبدیل ہوگئے ؟ انہوں نے سابق مرکزی وزیر اور این سی پی کے سربراہ شرد پورا سے ملاقات کی اور ملک میں تیسرے محاذ کی تشکیل کے امکان کا جائزہ لیا ۔ ممتا بنرجی کے سیاسی صلاح کار پرشانت کشور بھی سرگرم ہیں۔ ممتا بنرجی اور پرشانت کشور کی سرگرمیوں کے پیچھے آخر کس کا ہاتھ ہے ؟ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں کانگریس کے بغیر بی جے پی کا متبادل محاذ تیار کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ سابق میں اس طرح کے تجربے ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پرشانت کشور نے راہول گاندھی سے ملاقات کے دوران کانگریس کے صدر کے بعد کا عہدہ اور اختیارات دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مطالبہ کو قبول نہ کئے جانے کے بعد سے ممتا بنرجی اور پرشانت کشور نے مخالف کانگریس مہم شروع کردی ہے ۔ کل تک بی جے پی کا تعاقب کرنے والی ممتا بنرجی آج کانگریس کی مخالفت کے ذریعہ درپردہ طور پر بی جے پی کی بی ٹیم بن چکی ہیں۔ ظاہر ہے کہ کانگریس کی مخالفت سے راست طور پر بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اترپردیش میں غیر بی جے پی جماعتوں کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے ممتا بنرجی کانگریس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ ویسے بھی بی جے پی سے ممتا بنرجی کی دوستی کوئی نئی بات نہیں۔ وہ اٹل بہاری واجپائی حکومت میں وزیر ریلویز رہ چکی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بنگال کو بچانے کیلئے بی جے پی کے اشارہ پر کانگریس کی مخالفت شروع کی گئی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ 2024 ء میں ممتا بنرجی بی جے پی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گی۔ اگر بنگال کے باہر اپنی طاقت آزمانا ہے تو ممتا بنرجی کو اترپردیش الیکشن میں مقابلہ کرنا چاہئے ۔ ممتا بنرجی اور کے سی آر سے بی جے پی کی مخالفت کا تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ دونوں بی جے پی کے دوست رہ چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مخالف بی جے پی جماعتوں کی تائید ممتا بنرجی کو کس حد تک حاصل ہوگی ۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
شرافت ڈھونڈنے نکلے ہو ایوان سیاست میں
یہ چکلہ ہے یہاں عزت نہیں رسوائی رہتی ہے