شریعت میں قیاس کی اہمیت

   

(گزشتہ کا تسلسل)
ایک شخص نے عرض کیا ’’میری بیوی نے ایک بچے کو جنم دیا ہے، جس کا رنگ کالا ہے، اس لئے میں نے انکار کردیا ہے کہ وہ میرا بچہ نہیں ہے‘‘۔
پوچھا: ’’کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟‘‘
عرض کیا: ’’ہاں ہیں‘‘۔
پوچھا: ’’کس رنگ کے ہیں؟‘‘
عرض کیا: ’’سرخ‘‘
پوچھا: ’’کیا کوئی خاکی بھی ہے؟‘‘
عرض کیا: ’’ہاں ہے‘‘
پوچھا: ’’سرخ میں خاکی کہاں سے آگیا؟‘‘۔ (مشکوۃ، متفق علیہ)
اس سوال و جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اونٹ کے رنگ پر آدمی کے رنگ کو قیاس فرمایا۔
قرآن حکیم نے دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمادیا، کیونکہ یہ قطع رحمی کا باعث ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر قیاس کرکے پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کو ایک نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمادیا، کیونکہ یہ بھی قطع رحمی کا باعث ہے۔
آپﷺ نے فرمایا ’’اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ دیا جاتا ہے، وہ بھی صدقہ (نیک خرچ) ہے‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا ’’کیا خواہش نفس کی تکمیل پر بھی ثواب ہے؟‘‘۔ فرمایا ’’اگر وہ اس کو ناجائز مقام پر صرف کرتا تو کیا عذاب نہ ہوتا؟‘‘۔ اسی طرح صحابہ کرام کے عمل سے بھی قیاس کی حجیت ثابت ہے، مثلاً جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنائے جا رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خلافت کو امامت پر قیاس کیا تھا۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جب مانعین زکوۃ سے جہاد فرمایا تو آپ نے زکوۃ کو نماز پر قیاس کیا اورجب شراب کی سزا کا تعین ہو رہا تھا تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے شرابی کو قاذف (تہمت لگانے والے) پر قیاس کیا۔
عقل بھی قیاس کی تائید کرتی ہے۔ ارتقاء تمدن کے ساتھ ساتھ نت نئے مسائل کا پیدا ہوتے رہنا ایک فطری امر ہے۔ اگر ان نئے مسائل کے لئے قیاس کا دروازہ کھلا نہ ہو تو دین کی ہمہ گیری باقی نہیں رہ سکتی۔ عہد رسالت کے فوراً بعد جب عجم میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو نئے نئے مسائل کا انبار لگ چکا تھا۔ پھر اس کے بعد خلافت بنو امیہ اور خلافت بنو عباس میں تو اس میں انتہائی وسعت آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے تمام فقہاء کو قیاس کو ایک اصولی اصطلاح کی حیثیت سے جگہ دے کر اس کے قواعد و ضوابط مرتب کرنے پڑے۔ اسی طرح ارتقاء و تمدن کے ساتھ ساتھ مسائل کا سلسلہ بھی بڑھتا رہا اور آئندہ بھی اسی طرح بڑھتا رہے گا۔ جو شخص قیاس کو تسلیم نہیں کرتا، خواہ وہ اس کا نام نہ لے، لیکن خود اس کو شب و روز قیاس سے مفر نہیں۔ اب اگر کوئی شخص واقعتاً اس سے جان چھڑانا ہی چاہتا ہے تو یہ دو ہی طرح سے ممکن ہے، ایک یہ کہ انسان سرے سے تمدنی ترقی ہی کو اپنے اوپر حرام کرلے، جنگلوں میں جا رہے، پتے کھائے، اونٹوں پر سفر کرے، تیروں سے شکار کرے، تلواروں سے جنگ کرے، یا پھر قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ ہدایت کا کوئی اور سرچشمہ بھی ڈھونڈلے، جہاں سے اس کو موجودہ ضرورتوں کے لئے ہدایات مل سکیں، جب کہ یہ دونوں ہی صورتیں انتہائی نامعقول ہیں۔شریعت کے ان چاروں ماخذ قرآن، حدیث، صحابہ کرام کے عمل اور عقل کی حجیت ثابت ہونے بعد اب مزید دو ثبوت پیش کئے جا رہے ہیں۔ ایک تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ خط ہے، جو آپ نے عدلیہ کے ضابطہ کی وضاحت کرتے ہوئے قاضی شریح کو لکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’فیصلہ اس حکم پر کرو، جو کتاب اللہ میں ہو۔ اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر، اگر نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تو پھر صالحین نے جو فیصلے کئے ہیں، ان کے مطابق فیصلہ کرو، لیکن اگر کسی معاملے کا حکم نہ کتاب اللہ میں ملتا ہے، نہ سنت رسول اللہ میں اور نہ صالحین ہی کے فیصلوں میں اس کے متعلق کوئی نظیر موجود ہو تو تمھیں اختیار ہے، چاہے خود پیش قدمی کرو یا قائل کرو اور میرے نزدیک تأمل زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (نسائی)
دوسرا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’وہ زمانہ گزر چکا ہے، جب ہم نہ فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہماری یہ حیثیت تھی کہ فیصلے کریں (یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دور) اب تقدیر الٰہی سے ہم اس حال کو پہنچے ہیں، جو تم لوگ دیکھ رہے ہو۔ پس اب تم میں سے جس کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لئے پیش ہو تو اسے چاہئے کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرے اور اگر ایسا کوئی معاملہ آجائے، جس کا حکم کتاب اللہ میں نہ ہو تو اس کا فیصلہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق کرے اور اگر معاملہ ایسا ہو کہ اس کا حکم نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ فرمایا ہو تو صالحین نے اس کا جو فیصلہ کیا ہو، اس کی پیروی کرے۔ لیکن اگر ایک معاملہ ایسا آجائے جو نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں اور نہ صالحین نے اس سے پہلے کبھی اس کا فیصلہ کیا ہو تو اپنی رائے سے (حق و صواب تک پہنچنے کی) پوری کوشش کرو اور یہ نہ کہے کہ میں ڈرتا ہوں۔ کیونکہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ اور امور مشتبہ ہیں، سو مشتبہ امورمیں آدمی کو وہ فیصلہ کرنا چاہئے، جو اس کے ضمیر کو نہ کھٹکے اور ایسا فیصلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے جس کے متعلق خود اس کے ضمیر میں کھٹک ہو‘‘۔ (نسائی)