شمالی ہند اور انڈیا اتحاد

   

میں تو انجان مسافر ہوں چلا جاؤں گا
تیری محفل سے الگ سایۂ دیوار بھی ہے
اکثر و بیشتر اسمبلی و پارلیمانی انتخابات میں دیکھا گیا ہے کہ شمال ہند اور خاص طور پر ہندی پٹی والی ریاستوں میں بی جے پی نے دوسری تمام جماعتوں کا حاشیہ تنگ کر رکھا ہے ۔ کئی جماعتیں بشمول کانگریس بھی بی جے پی کی لہر کا شکار ہو کر سمٹ سی گئی ہیں۔ اترپردیش میں بی جے پی نے خود کا غلبہ بنالینے کا دعوی کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہاں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی بھی اب اپنے وجود کو برقرا ررکھنے کی جدوجہد کر رہی ہیں جبکہ کانگریس کی شناخت بھی محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ بہوجن سماج پارٹی کی عوامی تائید کا حاشیہ بہت تنگ ہوگیا ہے اور سماجوادی پارٹی کسی طرح مقابلہ میںخود کو برقرار رکھ پائی ہے ۔ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی پارٹی کو اترپردیش کے علاوہ شمالی ہند کی دوسری ریاستوں سے زبردست کامیابی ملنے کی امید ہے ۔ بی جے پی اسی کامیابی پر تکیہ کرتے ہوئے پارلیمانی انتخابات میں 400 نشستوں پر کامیابی کا دعوی کر رہی ہے ۔ بی جے پی نے اسی امید پر بہار میں نتیش کمار کو بھی ایک بار پھر اپنے جال میںپھانس لیا ہے اور نتیش کمار مودی کی سرپرستی میں چلے گئے ہیں۔ اسی طرح مختلف جماعتوں کے مختلف قائدین کو بھی توڑ کر اپنے ساتھ ملانے میں بی جے پی نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ تاہم اس بار ایسا لگ رہا ہے کہ کانگریس ۔سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ جنتادل کے قائدین نے خاموشی کے ساتھ شمالی ریاستوں میں پوری شدت کے ساتھ مہم چلاتے ہوئے بی جے پی کو حیران کرنے کی حکمت عملی بنائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ راہول گاندھی ‘ اکھیلیش یادو اور تیجسوی یادو مسلسل دورے اور انتخابی ریلیوں میں خطاب کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی کبھی اکھیلیش کے ساتھ تو کبھی تیجسوی کے ساتھ مشترکہ ریلی اور جلسوں میں دکھائی دے رہے ہیں اور پھر خود تنہا بھی پارٹی اور امیدواروں کی مہم کی ذمہ داری بھی نبھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی اپنے دعووں کے ساتھ عوام پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے اور وہ عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںر کھ رہی ہے ۔ پہلے مرحلے کی رائے دہی کے بعد سے انڈیا اتحاد کی مہم میں مزید شدت پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔
راہول گاندھی کانگریس کے اسٹار کیمپینر ہیں اور اکھیلیش و تیجسوی یادو اپنی اپنی پارٹی کے مرکزی قائدین ہیں اور ان ہی پر پارٹی کی انتخابی مہم کا دار و مدار ہے ۔ جہاں ملک کے میڈیا اداروں اور چینلس پر انڈیا اتحاد اور اس کے قائدین کی مہم کو کوئی جگہ نہیں دی جا رہی ہے وہیں انڈیا اتحاد کے قائدین اپنے اپنے سوشیل میڈیا اکاؤنٹس پر یہ مہم منظم انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ سوشیل میڈیا اداروں کی جانب سے ضرور انصاف سے کام کیا جا رہا ہے اور حقیقی معنوں میں انتخابی مہم کو پیش کیا جا رہا ہے ۔ تلو ے چاٹنے والے اینکرس کی طرح صرف ایک تصویر دکھانے یا پھر ایک ہی بات کو عوام کے ذہنوں میں انڈیلنے کی بجائے حقیقی صورتحال سے عوام کو واقف کروانے میںسوشیل میڈیا کے کچھ چیلنس اور ادارے پوری تندہی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ جس طرح سے بی جے پی کو اترپردیش اور بہار سے بہت زیادہ امیدیں ہیں اسی طرح سے راہول گاندھی ۔ اکھیلیش یادو اور تیجسوی یادو ان دونوں ریاستوں میں اپنے اپنے امیدواروں کو کامیابی دلانے کی جدوجہد کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس جدوجہد میں وہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کو ممکنہ حد تک نقصان پہونچاتے ہوئے اپنی اپنی کامیابی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ یہ مہم خاموش انداز میںچلائی جا رہی ہے ۔ اس کی وہ تشہیر نہیں ہو رہی ہے جتنی ہونی چاہئے ۔ تاہم انڈیا اتحاد کو یقین ہوچلا ہے کہ عوام میں تبدیلی کے تعلق سے رائے ہموار ہوچکی ہے اور وہ کسی شعبدہ بازی کا شکار ہوئے بغیر ووٹ ڈالیں گے ۔
اترپردیش اور بہار میں مقامی جماعتوں سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ جنتادل کے ساتھ اتحاد کے علاوہ کانگریس پارٹی مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور ہریانہ وغیرہ میں بھی بی جے پی کو ممکنہ حد تک سیاسی نقصان پہونچانے اور خاطر خواہ تعداد میں پارلیمانی نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے عزم کے ساتھ منصوبہ بند انداز میں کام کر رہی ہے ۔ ان ریاستوں میں بی جے پی نے گذشتہ انتخابات میں مکمل کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس بار کانگریس یا حلیف جماعتیں جتنی بھی نشستوں پر کامیابی حاصل کرپائیں گی وہ بی جے پی کا راست نقصان ہوگا اور انڈیا اتحاد کا اصل منصوبہ یہی ہے کہ بی جے پی کو 200 نشستوں کے آس پاس روکا جائے ۔