شمشان ‘ قبرستان اور اب ’ مسلمان‘!

   

تو فغاں کررہا ہے کیوں اے دل
تجھ کو تیری ہی آہ نے مارا
ویسے تو ہندوستان بھر میں یا پھر کسی بھی ریاست میں انتخابات کا وقت ہوتا ہے تو سیاسی قائدین کی جانب سے انتہائی نچلی سطح تک گرتے ہوئے ایسے ریمارکس کئے جاتے ہیں جن کی مہذب سماج میں کوئی جگہ نہیں ہوتی ۔ تاہم انتخابات کے دوران اگر ملک کے وزیر اعظم ہی تمام حدوں کو پھلانگ جائیں اور اخلاقی پستی کی انتہاء کو پہونچ جائیں تو یہ انتہائی افسوس کی بات ہوتی ہے ۔ سیاست میںفائدہ حاصل کرنے اور انتخابی جیت کیلئے کئی طرح کے ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے ہیں اور بی جے پی ان ہی ہتھکنڈوں کے ذریعہ کامیابی حاصل کرتی آئی ہے لیکن اگر ملک کے وزیر اعظم اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کروڑوں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اگر ہندووں کے ووٹ حاصل کرنا چاہیں اور کھلے عام کسی انتخابی تقریر میں مسلمانوں کو نشانہ بنائیں ‘ انہیں زیادہ بچے پیدا کرنے والے قرار دیں یا پھر در انداز قرار دیں تو یہ انتہائی افسوسناک صورتحال کہی جاسکتی ہے ۔ ملک کا وزیر اعظم کسی فرقہ یا طبقہ یا کسی مذہب کا نہیں ہوتا ۔ ملک کا وزیر اعظم ہر ہندوستانی کا وزیرا عظم ہوتا ہے لیکن نریندر مودی شائد یہ بھول گئے ہیں اور وہ محض ہندو برادری کو خوش کرنے اور اس کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں سماج میں نفرت کے بیج بونے اور دراڑ کو وسعت دینے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نے اتوار کو راجستھان میں جو تقریر کی تھی انہوں نے بظاہر تو کانگریس کو نشانہ بنایا لیکن انہوں نے بالواسطہ طور پر ملک کے مسلمانوں کے تئیں اپنے حقیقی خیالات کا اظہار کردیا ہے ۔ انہوں نے مسلمانوں کے زیادہ بچے ہونے پر جو طنز کیا ہے وہ قابل مذمت ہے اور انہوں نے مسلمانوں کو در انداز قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ وہ در اصل مسلمانوں کے نام سے ہندو برادری کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کی مال و دولت پر مسلمانوں اپنا حق جمالیں گے ۔ نریندر مودی کویہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان کو کسی کی مال و دولت نہیں بلکہ اگر اس کا اپنا حق ہی دیدیا جائے تو مسلمان کسی کا محتاج نہیں رہے گا ۔ ملک بھر میں مسلمانوں کی جو وقف املاک ہیں اگر انہیں ہی مسلمانوں کو سونپ دیا جائے تو مسلمان دوسروں کی مدد کریگا ۔
نریندر مودی ایسا لگتا ہے کہ وزارت عظمی کے وقار کو داؤ پر لگاتے ہوئے بھی انتخابی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح سے انڈیا اتحاد کے قائدین دعوی کر رہے ہیں کہ بی جے پی بھلے ہی خود 400 پار کا نعرہ دے لیکن وہ 200 پار بھی نہیں ہو پائے گی ایسے میں دوسرے قائدین تو سیاسی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں ہی لیکن خود مودی بھی ایسا لگتا ہے کہ اس بوکھلاہٹ کا زیادہ ہی شکار ہوگئے ہیں۔ وہ ملک کے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس کا نعرہ دیتے ہیں لیکن ملک میں ترقی کے ثمرات میں مسلمانوں کو حصہ داری کی بات آتی ہے تو انہیں در انداز قرار دینے سے بھی گریز نہیںکرتے ۔ وہ مسلمانوں کے زیادہ بچوں کو بھی برداشت کرنے تیار نہیں ہیں۔ یہ وزارت عظمی جیسے جلیل القدر عہدہ کے وقار کو مجروح کرنے والی تقریر تھی اور وزیر اعظم کو اس پر نہ صرف افسوس کا اظہار کرنا چاہئے بلکہ ملک کے مسلمانوں سے معذرت بھی کرنی چاہئے ۔ انہوں نے مسلمانوں کے تعلق سے اپنے جن منفی خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ہندوستان جیسے ملک میں قابل قبول نہیں ہوسکتے اور ایسے ریمارک سے ہر کسی کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے سماج کے دو بڑے طبقات کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے کی اگر ملک کے وزیر اعظم ہی کوشش کریں تو پھر دوسروں کو کس طرح سے روکا جاسکے گا ؟ ۔ انتخابی موسم میں دوسرا موقع ہے کہ وزیر اعظم نے انتہائی اخلاقی پستی اور ذہنی گراوٹ کا ثبوت پیش کیا ہے ۔
اس سے قبل بھی انتخابی موسم میں وزیر اعظم نے اترپردیش میں ایک تقریر کرتے ہوئے شمشان ۔ قبرستان کا حوالہ دیتے ہوئے فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دی تھی ۔ اس بار انہوں نے مسلمان کو نشانہ بنایا ہے اور راست اس کا تذکرہ کیا ہے ۔ ملک کے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ سنجیدہ سوچ کے حامل تمام افراد کو وزیر اعظم اور ان کے دوسرے قائدین کی تقاریر کا نوٹ لیتے ہوئے ان کی حوصلہ شکنی کرنی چائے ۔ سماج میں نفرت پھیلانے والی ہر تقریر اور ہر شخص سے گریز کیا جانا چاہئے چاہے وہ ملک کا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو ۔