شوکت کیفی،بہار نہیں حاصل بہار

   

رفیعہ نوشین

سماج میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو پیدا ہوئے اور گمنامی کی زندگی جی کر مر گئے – آج ان کی کہیں کوئی شناخت نہیں – وقت کی تیز رفتار میں وہ لوگ نہ جانے کہاں کھو گئے – مگر جن لوگوں نے ظلم کی آندھی کے سامنے تھک کر ٹوٹ جانا اور ٹوٹ کر بکھر جانا گوارا نہیں کیا وقت نے ایسے سورماؤں کو ہمیشہ سر آنکھوں پر رکھا – زیادتی اور بیزاری کے خلاف حق کا پرچم لہرانے والے یہ جنگجو لعل و جواہر بن کر چاند سورج کی طرح چمکتے رہے – ایسے ہی ایک سورج کا نام ہے کیفی اعظمی! جن پر انہی کا ایک شعر صادق آتا ہے کہ:
یہ صدی دھوپ کو ترستی ہے
جیسے سورج کو کھاگیا کوئی
کیفی اعظمی نے کہا تھا :اعلان حق میں خطرہ دار ورسن تو ہے – لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن کے بعد؟
یاد کیجئے ترقی پسند ادبی تحریک کا سفر صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں یہ آزادی اور امن کی تحریک اپنے شباب پر تھی – ہمارے ملک کے ادیب و شاعر جو اس تحریک سے وابستہ تھے ان میں زیادہ تر نوجوان تھے – نئے شاعر اور ادیبوں نے سجاد ظہیر اور ملک راج آنند کے ساتھ پریم چند، مولانا حسرت موہانی اور جوش ملیح آبادی جیسے بزرگ ادیبوں نے پورے ماحول میں جو نئی جان پھونکی تھی اس سے پورا ملک انقلابی ہو گیا تھا – اس وقت کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے لگ رہا تھا جیسے انقلاب بس دروازے پر دستک دے رہا ہو – مجروح جیسا نوجوان شاعر کہہ رہا تھا ۔
اس طرف روس، ادھر چین ملایا برما
اب اجالے میری دیوار تک آ پہنچے ہیں
اس وقت کے مشاعرے آج کل کے مشاعروں کی طرح نہیں ہوا کرتے تھے – یہ مشاعرے پیسے کمانے کے لئے نہیں بلکہ اس دور کے شاعروں میں آزادی کا جذبہ تھا – اور سب کچھ ایک مقصد کے تحت ہوتا تھا -جوش ملیح آبادی، مجاذ، کرشن چندر،ساحر لدھیانوی،مہندر ناتھ،عصمت چغتائی، جاں نثار اختر جیسے لوگ نوجوان اور طلباء میں جوش بھر رہے تھے- کیونکہ ان میں قربانی کاجذبہ تھا – ایسے ماحول میں یہ شعراء پورے ملک میں گھوم گھوم کر عوام کو ترغیب دینے کا کام کر رہے تھے- جس کے نتیجے کے طور پر ہر طرف ایک نئے خواب کی آمد دستک دے رہی تھی – ان میں کیفی کی مقبولیت دن رات بڑھ رہی تھی – اور وہ نوجوان دلوں کی دھڑکن بن گئے تھے – ترقی پسند شاعروں نے اپنی شاعری میں،عورتوں کو اس تحریک میں برابر کا شریک بنا کر ساتھ چلنے کی دعوت دے رہے تھے –
1947 میں حیدرآباد دکن میں ترقی پسند ادیبوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی- کیفی اعظمی اس میں شرکت کے لئے آئے تو ان کا قیام شوکت کے بہنوئی اختر حسن کے ہاں تھا- جو خود ایک ترقی پسند شاعر اور ادیب تھے – کیفی صاحب، خوبرو، مردانہ وجاہت کا پر کشش پیکر تھے- مشاعرے میں اشعار پڑھتے تو ان کا اندازِ بیان دلوں میں گھر کر لیتا، وہ اپنے ہر شعر کو اس طرح پیش کرتے کہ ہر کسی کی سمجھ میں اس کا مفہوم آجائے –
شوکت اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی کہہ رہی تھیں -کیسا بدتمیز شاعر ہے – جو عورت کو اٹھ کہہ رہا ہے – اٹھئے نہیں کہہ سکتا؟ یہ تو آداب کے الف سے بھی نا واقف ہیں – اس کے ساتھ کون اٹھ کر جائے گا – مگر جب سامعین کے تالیوں کی گونج کے ساتھ نظم ختم ہوئی تو شوکت اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ لے چکی تھیں – یہ نظم سن کر شوکت نے فیصلہ کیا کہ عورت کے بارے میں اس طرح سوچنے والا شخص ہی میرا شوہر ہو سکتا ہے- پرانے خیال کے کسی بھی آدمی کے ساتھ میرا گزر نہیں ہو سکتا – شوکت یہ بات اس سماج میں سوچ رہی تھیں جب لڑکیوں کی تعلیم کو برا سمجھا جاتا تھا- شوکت کے گھر میں خود ان کے ابا واحد انسان تھے جن کی وجہ سے وہ پڑھنے لکھنے کی کوشش کر پا رہی تھیں –
اس نظم نے شوکت پر ایسا اثر ڈالا کہ انہوں نے اسی وقت کیفی کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا – شوکت جو پیار سے گھر میں موتی کہلاتی تھیں، روشن خیال، پُروقار اور جاذب نظر، ریاست حیدر آباد دکن کے ایک ایسے گھرانے کی بیٹی تھیں جو نہ صرف شعر و ادب کا قدر دان تھا بلکہ انتہائی امیر اور مہذب تصور کیا جاتا تھا۔ شوکت کیفی اپنی مختصر سی آپ بیتی ‘یاد کی رہ گزر’ میں لکھتی ہیں کہ جب گھر والوں کو ان کی اس محبت کا علم ہوا تو بہت ہنگامہ برپا ہو گیا۔ چونکہ شوکت بناؤ سنگھار اور لباس پر دل کھول کر خرچ کرتی تھیں اس لئے
والد کا کہنا تھا کہ ’تم ایک شاہانہ زندگی گزارنے کی عادی ہو جبکہ کیفی ایک شاعر ہیں جو صرف 45 روپے ماہانہ کماتے ہیں، جس میں تمہارا گزارا ناممکن ہے۔‘ یہ وہ مرحلہ تھا جب شوکت کیفی نے گھر والوں سے بغاوت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کیفی بہت پسند تھے اس لئے گھر والوں کو دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ چاہے مجھے ان کے ساتھ محنت مزدوری کرنی پڑے، سر پر مٹی کی ٹوکریاں اٹھانی پڑے لیکن شادی کروں گی تو صرف کیفی سے ہی۔ شوکت کے والد نے ایک فیصلہ کیا اور انہیں لے کر ممبئی گئے تاکہ انہیں دکھا سکیں کہ کمیونسٹ کیفی کس ناداری اور بے سر و سامانی کے عالم میں رہتے ہیں – ان کا خیال تھا کہ کیفی کی بود وباش دیکھ کرشوکت کا عشق ہوا ہو جائے گا – لیکن شوکت اس بد حالی کو دیکھ کر کیفی پر اور بھی فریقتہ ہو گئیں – کیفی غریبوں اور بد حالوں کی دنیا بدلنا چاہتے تھے اور شوکت،کیفی کی – شوکت نے طے کیا کہ وہ کیفی کے شانے سے شانہ ملا کر چلیں گی اور تبدیلی کے اس سفر میں ان کے ساتھ رہیں گی – اس طرح کیفی اعظمی اورشوکت کی محبت کا اختتام شادی پر ہوا، اُس وقت شوکت کی عمر صرف 20 سال بتائی جاتی ہے – شوکت اور کیفی اعظمی کا نکاح ممبء میں سجاد ظہیر اور ان کی بیوی رضیہ کے گھرمیں ہوا- تقریب شادی میں بہت سے ترقی پسند شاعر، ادیب موجود تھے – شادی میں علی سردار جعفری نے دلہن کو کیفی کا پہلا مجموعہ کلام ”آخری شب” تحفہ میں دیاجس کے پہلے صفحہ پر کیفی نے لکھا تھا ”ش کے نام” (ش سے مراد شوکت) میں تنہا اپنے فن کو آخری شب تک لا سکا ہوں- تم آجاؤ تو سحر ہو جائے – اس طرح شوکت کیفی اعظمی کی ہمسفر بن گئیں۔ شوکت کیفی کا کہنا تھا کہ گھر والوں کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ لیکن کیفی ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دن و رات ایک کرتے گئے۔ صبح پانچ بجے اٹھ کر گھر سے نکلتے اور پھر درخت کے نیچے بیٹھ کر مزاحیہ نظم لکھتے جو اخبار میں شائع ہوتی اور جس کا ماہانہ معاوضہ کوئی ڈیڑھ سو روپے بنتا تھا۔ جس میں سے کچھ رقم وہ شوکت کو کھانے پینے اور دوسری اشیا کے لیے دیتے – شوکت کو ان کی یہ محنت خاصی متاثر کر گئی اور وہ ان کا سہارا بننے کی کوشش میں لگ گئیں۔ کیفی چونکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور ترقی پسند تنظیم کے سرگرم رکن تھے اور 1949 میں حکومت مخالف تحریک چلانے کی بنا پر روپوش بھی ہوئے جس کا سب سے زیادہ نقصان شوکت کو سہنا پڑا تھا – شوکت کیفی کا پہلا کم سن بیٹا شدید بیمار ہوا تو ان کے پاس علاج کرانے کے لیے بھی رقم نہیں تھی اور طویل علالت کے باعث وہ چل بسا جس کا اثر اور غم شوکت کیفی کے ذہن پر ایسا ہوا کہ انہوں نے کیفی کو اس بات پر اکسایا کہ وہ فلموں کے لیے باقاعدگی سے نغمہ نگاری کریں۔
تحریک کارگر ثابت ہوئی۔ جس کا معقول معاوضہ اس جوڑے کے لیے کافی تھا اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ ادھر کیفی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے شوکت نے بھی پہلی بار کورس میں گانا ریکارڈ کرایا جس کے انہیں 30 روپے ملے۔ ان کی چھپی ہوئی صلاحیتیں، کیفی کی سنگت اور حوصلہ افزائی کے باعث نکھرنے لگیں تو پھر دھیرے دھیرے وہ تھیٹر گروپ سے بھی وابستہ ہوئیں۔
1943 میں اپٹا Indian people’s Theatre Association کی بنیاد رکھی گئی تھی- اور شوکت اعظمی نے 1944 سے ڈراموں میں اداکاری کرنا شروع کیا اور اس تحریک کو اس کی اونچائیوں تک پہنچانے کا کام کیا – وہ نہ صرف اپٹا سے وابستہ تھیں بلکہ انہوں نے پرتھوی تھیٹر گروپ، تریوینی رنگ منچ، اور انڈین نیشنل تھیٹر کے ساتھ بھی کام کیا تھا – پرتھوی تھیٹر کے ذریعہ کئے گئے ڈرامے ‘شکنتلا، ‘دیوار’ ‘غدار’ ‘پیسہ اور کسان’ میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ ڈرامے بہت مشہور بھی ہوئے تھے – اپٹا کے ڈرامے ‘لال گلاب کی واپسی’ الیکشن کا ٹکٹ’ ‘آخری سوال’ تنہائی وغیرہ بہت خاص مقام رکھتے ہیں – اداکاری اور تھیٹر کے اس سفر میں کئی ایسے مقام آئے جب اپٹا کے کلا کاروں پر پولیس نے گولیاں چلائیں جس میں شوکت کبھی بال بال بچیں تو کبھی پولیس کی لاٹھیوں سے زخمی ہوئیں لیکن کبھی پیچھے نہیں ہٹیں – جہاں تک اپٹا کا تعلق ہے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اس تحریک میں کیفی کا رول زیادہ موثر تھا یا شوکت آپا کا – صرف اپٹا ہی نہیں بلکہ جب بھی بھارت کے تہذیبی و ثقافتی تحریک کی تاریخ لکھی جائے گی تو شوکت آپا کا نام ان ہستیوں میں آئے گا جنہوں نے تحریک کو ایک سمت عطا کی – شوکت نے کیفی سے شادی کی تھی لیکن باقی زندگی دونوں نے دوست کی طرح بتائی – یہ دونوں اپنے بچوں سے بے پناہ پیار کرتے تھے- جب کبھی ایسا ہوتا تھا کہ شوکت پرتھوی تھیٹر کے کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جاتیں توکیفی شبانہ اور بابا اعظمی کو لے کر مشاعروں میں شرکت کرتے اور شہہ نشین پر جہاں شعراء کرام تشریف فرما ہوتے وہیں پر پیچھے بچے بھی بیٹھے رہتے ۔ کیفی کے اصرار پر ہی شوکت نے فلموں میں بھی کام کیا تھا – 1964 میں بنی ’حقیقت،‘  ان کی پہلی فلم تھی – اس کے بعد ’ہیر رانجھا،‘ ’امراؤ جان،‘ ’گرم ہوا‘، ’بازار‘ اور میرا نائر کی آسکر کے لئے نامزد فلم سلام ‘بامبے’ میں انہوں نے اداکاری کے خوب جوہر دکھائے۔ وہ ایک بہادر خاتون کے ساتھ ساتھ اسٹیج اور فلم کی منجھی ہوئی بے مثال اداکارہ تھیں – کیفی کے انتقال کے بعد 2002 سے انہوں نے فلموں میں کام کرنا بند کر دیا تھا – آخری بار وہ  ڈائریکٹرشاد علی کی فلم‘ساتھیا’میں نظر آئی تھیں-
شوکت اور کیفی اعظمی کی محبت کا یہ سفر دوسروں کے لیے مثال بنا۔ کیفی کے انتقال کے بعد انہوں نے کیفی سے محبت اور ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’کیفی اور میں‘ لکھی – جس میں انہوں نے ماضی کے کئی بند دریچے کھولے۔ اس کتاب میں ایسے ان گنت واقعات بیان کئے گئے ہیں جو ان کی اور کیفی کی زندگی، اس کی سختیوں اور آزمائشوں پر روشنی ڈالتے ہیں – اور یہ بتاتے ہیں کہ اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں سے بہرہ ور ان فنکاروں نے کیسے حوصلہ شکن حالات میں ادب اور آرٹ کی خدمت گزاری کا حق ادا کیا- اور اسی وسیلے سے ملک میں ترقی پسند اصولوں اور اقدار کی آبیاری کا فرض نبھایا – جاوید اختر اور شبانہ اعظمی نے شوکت کیفی کی اس کتاب سے ایک ڈرامہ بنایا جس میں صرف ان دونوں نے ہی صداکاری کی ہے -2006 میں کیفی کی چوتھی برسی پر اس ڈرامہ کو پہلی مرتبہ عوام کے لئے پیش کیا گیا تھا – بعد میں لندن، دبئی، مسقط، نیویارک، ٹورنٹو وغیرہ میں اس کے 100 سے زیادہ شو کامیابی کے ساتھ منعقد کئے گئے –
شوکت اور کیفی کی یہ رومانوی رفاقت پچپن سال برقرار رہی تا آنکہ لمبی بیماری کے بعد کیفی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں – تھیٹر اور اپنے شوہر کیفی اعظمی کے علاوہ انہیں اپنے دونوں بچے شبانہ اعظمی اور بابا اعظمی دنیا کی ہر شئے سے زیادہ عزیز تھے – جس وقت شوکت آپا 93 سال کی تھیں تو صحت سے متعلق پریشانیوں سے دوچار تھیں۔ انہیں کوکلابین دھیروبھائی امبانی ہاسپٹل میں داخل کرایا گیا۔ کچھ دنوں کے لئے انہیں آئی سی یو میں بھی رکھا گیا تھا۔آخر  میں انہیں گھر لایا گیا۔ وہ اپنے کمرے میں رہنا چاہتی تھیں – ایک دو دن اسی میں رہیں اور پھر ان کا انتقال ہو گیا – شوکت کے شوہر کیفی اعظمی مشہور شاعر اورنغمہ نگار تھے۔ وہ اور ان کے شوہرسی پی آئی  کی ثقافتی تنظیموں اپٹااور‘پروگریسو رائٹرس ایسوسی ایشن’کے جانے مانے نام تھے۔ شوکت آزادی کے بعد ملک کے سب سے بڑے ترقی پسند گروپ کا حصہ تھیں، اور اب ان کیجانے کے بعد یہ باب ہی بند ہو گیا-
وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد
دادسخن ملی مجھے ترکسخن کے بعد
(کیفی اعظمی)