شہباز شریف کا بحیثیت وزیر اعظم انتخاب

   

یہیں کہیں پہ ہے شاید زوال کی منزل
بہت سے لوگ مرا احترام کرنے لگے
پاکستان میں بالآخر حکومت تشکیل پا گئی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ ( نواز گروپ ) کے رہنما شہباز شریف کو وزارت عظمی کا حلف دلادیا گیا ہے ۔ وہ دوسری معیاد کیلئے پاکستان کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ پارلیمنٹ کی تحلیل اور عبوری حکومت کے قیام سے قبل بھی شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم تھے ۔ حالانکہ یہ امید کی جا رہی تھی کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف چوتھی معیاد کیلئے پاکستان کے وزیر اعظم کا حلف لیں گے تاہم کہا گیا ہے کہ نواز شریف نہیںچاہتے کہ کسی اقلیتی حکومت کی کمان سنبھالیں۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور تینوں مرتبہ ان کی پارٹی کو اکثریت حاصل تھی ۔ تاہم اس بار پارلیمانی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کو صرف 80 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے تاہم دوسری سیاسی جماعتوں کی تائید کے نتیجہ میں شہباز شریف کو وزارت عظمی کا حلف دلایا جاسکا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ انتخابات میںسب سے زیادہ امیدوار پاکستان تحریک انصاف کی تائید و حمایت والے کامیاب ہوئے ہیں لیکن شہباز شریف اور آصف زرداری کی پارٹیوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے مبینہ طور پر دھاندلیوں کے ذریعہ حکومت تشکیل دی ہے اور انہوں نے پی ٹی آئی کی حمایت والے امیدواروں کے انتخابی نتائج کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے ۔ انتخابات ے قبل عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا ۔ ان کے انتخابات میں مقابلہ پر پابندی عائد کی گئی ۔ ان کی جماعت کو انتخابات لڑنے سے روک دیا گیا ۔ اس کے باوجود ان کی پارٹی کے حمایتی اور تائیدی امیدوار سب سے زیادہ تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان تمام کامیاب ارکان کو یکجا اور مجتمع ہونے کا موقع نہیں دیا گیا ۔ حالانکہ پی ٹی آئی کو بھی پاکستان قومی اسمبلی میں از خود اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے لیکن وہ سب سے بڑی پارٹی ضرور کہی جاسکتی تھی اگر اسے باضابطہ مقابلہ کی اجازت دی جاتی ۔ اب جبکہ شہباز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں تو ان کے آگے بہت زیادہ مسائل ہیں اور چیلنجس کا بھی انہیںسامنا ہے ۔ وزارت عظمی کا عہدہ ان کیلئے کانٹوں کے تاج سے کم نہیں ہوگا ۔
پاکستان کو جس طرح کے مسائل کا سامنا ہے اور اسے جو چیلنجس درپیش ہیں ان سے نمٹنا نئی حکومت کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔ اگر پی ٹی آئی یا عمران خان بھی کامیابی حاصل کرتے تب بھی ان کیلئے بھی صورتحال یہی ہوتی جو اب شہباز شریف کو درپیش ہے ۔ اپنی سابقہ معیاد میں حالانکہ شہباز شریف نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے امداد حاصل کرتے ہوئے ملک کو کچھ راحت ضرور فراہم کی تھی لیکن جس طرح سے وہاں اڈھاک بنیادوں پر فیصلے کرتے ہوئے کسی جامع منصوبہ بندی کے بغیر کام کیا گیا تھا اس کے نتیجہ میں مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے گئے تھے ۔ اب بھی اگر سابقہ طریقہ کار کو ہی برقرار رکھا جاتا ہے تو پھر ان کیلئے مسائل کم نہیں ہونگے بلکہ ان میںاضافہ ہی ہوتا جائیگا ۔ شہباز شریف کیلئے صرف ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ان کی پارٹی کے طاقتور فوج کے ساتھ اختلافات ختم ہوگئے ہیں۔ شہباز شریف اور فوج دونوں ہی کیلئے عمران خان ایک مشترکہ حریف تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں جانب سے اختلافات کو فراموش کرنے ہی کو ترجیح دی گئی ۔ دونوں ہی کے مفادات اختلافات ختم کرنے میں مضمر تھے اور اسی کے نتیجہ میں شہباز شریف اور ان کی پارٹی کو فوج کی تائید حاصل ہوئی ہے ۔ فوج اگر غیر جانبدار ہوجاتی تو عمران خان کو روکنا یا انہیں شکست سے دوچار کرنا شہباز شریف یا دوسری جماعتوں کیلئے آسان نہیں ہوتا ۔ فوج کی تائید کے ساتھ شہباز شریف اپنی حکومت کی جانب سے ملک کی بہتری کیلئے کیا کچھ منصوبے تیار کرتے ہیںوہ اہمیت کا حامل ہوگا۔
آج پاکستان کی جو حالت ہے وہ ساری دنیا پر عیاں ہے ۔ پاکستان اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے بھی جدوجہد کا شکار ہے ۔ روز مرہ کے سرکاری اخراجات کی تکمیل تک کیلئے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ ملک میں مہنگائی حقیقی معنوں میں آسمان کو چھونے لگی ہے ۔ عوام کیلئے روزگار ختم ہوگئے ہیں۔ دو وقت کی روٹی محال ہوگئی ہے ۔ عالمی سطح پر بھی پاکستان اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یکا و تنہا ہوچکا ہے ۔ ساری صورتحال کو بالکل الٹنا ہے اور حالات بہتر بنانے ہیں تو حکمران طبقہ کو اپنے طرز عمل میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔ جامع منصوہ بندی اور نیک نیتی سے کام کرنا ہوگا ورنہ صرف حکومت بدلی ہے حالات نہیں بدلیں گے ۔