شہریت ترمیمی قانون ، این پی آر ،این آر سی کا متحدہ بائیکاٹ ضروری

   

تلنگانہ و آندھراپردیش کی حکومتیں موقف واضح نہیں کرتے ہیں تو عوامی برہمی کا سامنا کرناپڑے گا : ارشد مدنی

٭٭ دستور کے تحفظ کیلئے جدوجہد مشترکہ ہونی چاہیئے ۔
٭٭ دہلی فسادات ، پولیس ایکشن سے تعبیر۔
٭٭ جمعیت العلماء آسام میں این آر سی متاثر ین کیلئے جدوجہد کررہی ہے

حیدرآباد۔3فروری(سیا ست نیوز) ملک کو تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے لازمی ہے کہ ملک میں تمام طبقات متحدہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی ظالمانہ اور غیر آئینی پالیسی سے آزادی کی جدوجہد کریں‘ شہریت ترمیم قانون ‘ این پی آر اور این آر سی کے خلاف تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متحدہ طور پر اس کا بائیکاٹ کرنا ہوگا اور اگر ریاست تلنگانہ میں حکومت کی جانب سے این پی آر کا بائیکاٹ نہیں کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں جمعیتہ علمائے ہند کی جانب سے اجلاس عام منعقد کیا جائے گا۔ مولانا ارشد مدنی صدر جمعیتہ علماء نے آج میڈیا پلس میں منعقدہ تحفظ جمہوریت کانفرنس اور اس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ہندستان کے دستور کے تحفظ کیلئے جدوجہد مشترکہ ہونی چاہئے ۔ اس اجلاس اور پریس کانفرنس کے دوران جناب محمد علی شبیر سابق قائد اپوزیشن تلنگانہ قانون ساز کونسل ‘جناب سید عزیز پاشاہ سابق رکن پارلیمنٹ‘ مسٹر کودنڈا رام ریڈی‘ جسٹس بی چندرا کمار ‘ جناب حامد محمد خان‘ مولانا مفتی غیاث رحمانی‘ مولانا مفتی محمودزبیر قاسمی‘ مولانا مفتی عامر‘ محترمہ جسوین جئے رتھ اور دیگر موجود تھے۔ مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ہندستان کی تقسیم کے لئے مسلمان ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو کہ ملک کی تقسیم کے دستاویز پر دستخط کئے ہیں ،ہندستانی مسلمانوں نے ملک کی آزادی اور ملک کے سیکولر دستور کے لئے جدوجہد کی ہے۔انہو ںنے بتایا کہ ہندستان میں جو لوگ فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہیں وہ دراصل ملک کو ختم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ملک اس وقت ہی برقرار رہ سکتا ہے جب اس ملک کے مکین مطمئن اور پر امن انداز میں زندگی گذاررہے ہوں۔ مولانا ارشد مدنی نے دہلی میں ہونے والے فسادات کو پولیس ایکشن سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی نگرانی میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے تباہی مچائی ہے اور اس تباہی کا شکارہونے والوں کی حکومت کی جانب سے دادرسی تک نہیں کی گئی جو کہ اس بات کا بعین ثبوت ہے کہ حکومت کے اشاروں پر یہ خونریزی ہوئی ہے۔ انہوں نے کپل مشرا کو وائی زمرہ کی سیکیوریٹی فراہم کئے جانے پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جب دنیا شاہد ہے کہ اس شخص کی وجہ سے فرقہ وارانہ یکجہتی متاثر ہوئی ہے تو اس کے خلاف کاروائی کے بجائے اس شخص کو وائی زمرہ کی سیکیوریٹی فراہم کیا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ کس کے اشاروں پر کپل مشرا نے وہ بیان دیئے تھے۔ مولانا ارشد مدنی نے بتایا کہ جمعیتہ علمائے ہند کی ایک عظیم تاریخ ہے اور اس ملک میں مسلمانوں نے ملک کی آزادی کیلئے قربانیاں پیش کیں اور ملک کو تقسیم سے بچانے کے لئے جدوجہد کی ۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں حالات کو بہتر بنانے کیلئے لازمی ہے کہ ان قوانین سے دستبرداری اختیار کی جائے بصورت دیگر حالات مزید سنگین نوعیت اختیار کرسکتے ہیں۔ انہو ں نے این پی آر کا تمام طبقات کے لوگوں کو متحدہ طور پر بائیکاٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ تنہاء مسلمانوں کے بائیکاٹ کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اس کے منفی نتائج برآمدہوں گے۔ صدر جمیعۃ علمائے ہند نے کہاکہ جو لوگ فرقہ پرستی کے عروج کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کا جو حال جھارکھنڈ اور دہلی میں ہوا ہے وہی حشر بہار اور بنگال میں بھی ہوگا۔ انہو ںنے کہا کہ ریاست تلنگانہ و آندھرا پردیش میں بھی حکومتوں کو عوام کی نبض اور جذبات سے آگہی حاصل کرنی چاہئے کیونکہ اگر وہ این پی آر کے مسئلہ پر اپنا موقف واضح نہیں کرتے ہیں تو انہیں بھی عوامی برہمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیتہ علمائے ہندنے این آر سی کے نفاذ کی بات کبھی نہیں کی اور جمعیتہ برسوں سے آسام میں این آر سی کے متاثرین کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے ان اقدامات کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ دراصل ہندستان کا خمیر اور احساس ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے مخالف مسلم قانون سازی اور دستور کے سیکولر کردار کو ختم کرنے کی کوششوں کے خلاف ہندو اور مسلم سب متحدہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہو ںنے بتایا کہ دہلی فسادات کے بعد جو حالات سامنے آرہے ہیں اورہندو کہہ رہے ہیں مسلمانوں نے ان کی جان بچائی اور مسلمان کہہ رہے ہیں کہ ہندوؤں نے انہیں تحفظ فراہم کیا، تاریخ میں ایسی کوئی مثالیں نہیں ملتی لیکن موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں نے ملک میں بسنے والوں کو متحد کردیا ہے۔مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جب تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے متحدہ طور پر جدوجہد کریں گے تو ایسی صورت میں یہ جدوجہد سیکولر رہے گی اور جدوجہد کرنے والوں کا مقابلہ راست فسطائی قوتوں سے ہوگا جو ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہو ںنے بتایا کہ جن ریاستوں نے این پی آر کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان ریاستوں میں مکمل طور پر حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے این پی آر میں حصہ لینے سے گریز کیا جائے اور جن ریاستوں میں این پی آر ہونے جا رہاہے وہاں ہندو مسلم مل کر اس کا بائیکاٹ کریں۔