شیشہ و تیشہ

   

مرسلہ : محمد جمیل الرحمن
آزاد دیش !!
بچھائے ہوئے جال ہر سو یہاں صیاد ہیں
رقص فرما ہر طرف غرور، ظلم و جور ہیں
تلواریں ننگی لئے سر پر کھڑے جلاد ہیں
ساری قوم دہر میں مائل فریاد ہیں
…………………………
فرید سحرؔ
گورے گال …!!
کاش ہوتے میرے یارو گورے گال
ہر کوئی کہتا ہیں کتنے اچھے گال
خوبصورت،ہینڈسم تھے میرے گال
غم کی گرمی سے ہوئے یہ کالے گال
سُوکھ کر پاپڑ کے جیسے ہو گئے
تھے کبھی اُن کے بھی اچھے موٹے گال
ناک اُن کی دب کے چھوٹی ہو گئی
گال اُن کے جیسے ہیں ٹُن ٹُن کے گال
گال اُن کے خوبصورت ہیں مگر
ہم کو اچھے لگتے ہیں بس اپنے گال
کوئی آئے یا نہ آئے گھر مرے
چُومنے آتے ہیں مچھر میرے گال
ہم کو بچپن سے ہی اچھے لگتے ہیں
نرم و نازک اور روئی جیسے گال
سُرخ اتنے گال کیسے ہو گئے؟
دو طمانچے ڈیاڈ کے ہیں کھائے گال
ہو نہ پائی وہ مری لیکن سحرؔ
ہیں نظر میں سیب جیسے اس کے گال
…………………………
ترکیب استعمال!
٭ اردو کے ایک معروف شاعر کوگفتگو کے دوران اپنے ہر جملے میں انگریزی کا کوئی نیا لفظ ٹانکنے کی عادت تھی ۔ وہ جب بھی انگریزی کا کوئی نیالفظ سنتے تو اپنے کسی ساتھی سے اس کے معنی پوچھ لیتے ۔ ایک دن دوران گفتگو ’’لٹریچر‘‘ کا لفظ سنا تو اپنے ساتھی سے پوچھ بیٹھے ۔ یار یہ ’’لٹریچر‘‘ کے کیا معنے ہیں۔ ساتھی نے جواب دیا ’ادب‘ ۔
اسی شام کافی ہاؤس میں مولانا چراغ حسین حسرتؔ نے شاعر مذکور سے کہا ’’عزیزم ! سنا ہے تم میرے بارے میں بڑی بک بک کرتے رہتے ہو ؟
شاعر مذکور نے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا مولانا یہ کیسے ہوسکتا ہے ، میں تو آپ کا بے پناہ ’لٹریچر‘ کرتاہوں ۔
لٹریچر کی یہ ترکیب استعمال سن کر مولانا دم بخود رہ گئے …!
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
جانے کیا ہوگیا …؟
٭ ساس نے اپنی بہو کو فون پر بات کرتے ہوئے پریشانی کے عالم میں کہا : بہو رانی ! آخر میرے بیٹے کو کیا ہوگیا ہے پتہ نہیں روز رات میں سوتے وقت نیند میں بڑبڑاتا رہتا ہے ۔ کبھی کسی سے لڑتے جھگڑتے جیسا معلوم ہورہا ہے تو کبھی کسی سے بحث کررہا ہے ۔ تم جلد سے جلد اپنے میکے سے آجاؤ تو کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کروائیںگے ۔
بہو ( اطمینان ) سے کہا : ایسی کوئی بات نہیں ہے ماں جی ! اصل میں وہ وکالت کی پریکٹس کررہے ہیں …!!
سالم جابری ۔ آرمور
…………………………
سمجھ تو !!
٭ ایک شخص کے پڑوس میں ایک پالتو اور شریر طوطا تھا ۔ جب بھی وہ شخص کسی کام سے پڑوسی کے گھر کے قریب سے گذرتا طوطا اُس کو گالیوں سے نوازنا شروع کردیتا ۔ وہ آدمی طوطے کی اس حرکت کو نظرانداز کرکے آگے بڑھ جایا کرتا تھا ۔ ایک دن طوطے نے پھر ایک بار گالیاں بکنی شروع کی تو اُس شخص کی برداشت جواب دے گئی اور اُس نے جاکر اس کے مالک سے شکایت کردی ۔ جس پر مالک نے طوطے کی زبردست کھینچائی کی۔ اگلے دن وہ آدمی جب وہیں سے گزرتا ہے تو طوطا اس کو دیکھ کر گالیاں نہیں بکتا لیکن صرف اتنا کہتا ہے :
’’سمجھ تو گئے ہو گے تم‘‘
مرزا احمد بیگ ۔ ممتاز باغ
…………………………
پردیس میں …!!
٭ پردیس میں ایک فائیواسٹار ہوٹل میں ایک ڈاکٹر نے ویٹر کو جلی ہوئی روٹیاں لانے کیلئے کہا تو ویٹر نے تعجب سے وجہہ پوچھی تو ڈاکٹر بولا : ’’پردیس میں آج بیوی کی بہت یاد آرہی ہے …!!‘‘
مظہر قادری۔ حیدرآباد
…………………………