شیشہ و تیشہ

   

علامہ اسرار جامعیؔ
ماہِ صیام رُخصت…!
دنیا یہ جانتی ہے کیا شان ہے ہماری
بعد ازاں جہاد جیسے میداں سے جائیں غازی
پہلے نمازیوں کی تھی فوج مسجدوں میں
ماہِ صیام رخصت ، رخصت ہوئے نمازی
……………………………
جیدیؔ
ہلال عید
چاند رات آئے تو سب دیکھیں ہلال عید کو
اک ہمارا ہی نصیبہ ہڈیاں تڑوا گیا!
چھت پہ ہم تھے چاند کے نظارے میں کھوئے ہوئے
بس اچانک چاند کا ابا وہاں پہ آ گیا
…………………………
شیخ احمد ضیاءؔ
عید آئی ہے
عید کا جشن مناؤ کہ عید آئی ہے
غم کے ماروں کو ہنساؤکہ عید آئی ہے
ہاتھ میں ہاتھ ملانا تھا دکھاوا بھائی
دل سے اب دل کو ملاؤ کہ عید آئی ہے
دودھ میں پانی ملانے کی روایت ہے قدیم
دودھ پانی میں ملاؤ کہ عید آئی ہے
ہے ابھی تک بھی سلامی کا چلن گاؤں میں
تم بھی سسرال کو ہو آؤ کہ عید آئی ہے
اک برس بیت گیا تم کو نہائے شاید
آج جی بھر کے نہاؤ کہ عید آئی ہے
ایک روزہ رکھا افطار کئے پورے تیس
اُس کی گلپوشی کراؤ کہ عید آئی ہے
میں نے بیگم سے کہا آج بھی غصہ کیسا
شیرخورمہ ہی پلاؤ کہ عید آئی ہے
اُس کی تعریف کرو جتنی بھی کم ہی ہے ضیاءؔ
اک غزل اُس کو سناؤ کہ عید آئی ہے
…………………………
اقبال شانہؔ
عید مبارک!
گلشن گلشن عید مبارک
ساون ساون عید مبارک
گھر گھر برسے عید کی خوشیاں
آنگن آنگن عید مبارک
صندل کی خوشبو میں لپٹی
چندن چندن عید مبارک
آؤ یار گلے لگ جاؤ
تن من ، تن من عید مبارک
چوڑی ، کنگن ، پائل بولے
چھن چھن ، چھن چھن عید مبارک
پردیسی بالم گھر آئے
ساجن ، ساجن عید مبارک
پھولوں کی مالا پہنادے
مالن مالن عید مبارک
میرے کپڑے سی کر لاؤ
درزن درزن عید مبارک
عید گلے سے گلا ملتا ہے
گردن گردن عید مبارک
ویلکم شیخ مبارک صاحب
اھلاً و سھلاً عید مبارک
وہ شانہؔ پردے میں بیٹھا
چلمن ، چلمن عید مبارک
…………………………
دو راستے …!!
٭ ہوائی جہاز کے سفر میں ائر ہوسٹس نے ایک مسافر کو بتایا۔ اگر آپ خاتون مسافروں کو تنگ نہ کریں تو سگار پی سکتے ہیں۔
مسافر نے خوش ہو کر کہا : مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرے لیئے دو راستے کھلے ہیں۔ ایسی صورت میں سگار پینا بھلا کون پسند کرے گا۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
رونے کی وجہ…!
٭ ایک صاحب اپنے لڑکے کو اتنا کھانا ہی دیتے تھے کہ اس کا ہاضمہ خراب نہ ہو مگر لڑکے کی نیت نہیں بھرتی تھی۔ ایک روز ایک دعوت میں لڑکے کو ساتھ لے گئے ، وہاں کھانے ایک سے عمدہ ایک تھے ۔ لڑکا کھاتے کھاتے رونے لگا ۔
باپ نے لڑکے سے کہا : ’’بیٹا ! روتے کیوں ہو؟لڑکے نے روتے ہوئے جواب دیا :
’’اب کھایا نہیں جاتا!‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………
اچھا …!
گاہک : ایک انڈا کتنے کا ہے ؟
دکاندار : ٹوٹا ہوا پانچ روپئے کا ، اور ثابت آٹھ روپئے کا ۔
گاہک : اچھا ! تو یہ ثابت انڈے توڑ توڑ کر اس برتن میں ڈال دو ۔
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………