شیشہ و تیشہ

   

محمد جمیل الرحمن
سستا خون …!!
مصلحت سے چپ ہیں ہم بھی دیکھ کر شور و شر
رنگ لائے گا کسی دن اپنے ارمانوں کا خون
ہر گلی کوچے میں دیکھو بہہ رہا ہے آج کل
کتنا سستا ہوگیا ہے آج انسانوں کا خون
…………………………
انور شعورؔ
مزاحیہ غزل
بساط نامۂ اعمال کی بچھائے ہُوئے
ہم اپنے سامنے بیٹھے ہیں سر جُھکائے ہوئے
اگرچہ ہاتھ میں ہے سربلند پرچم آج
جہاں تھا چاہئے ہونا، وہیں ہیں کیا ہم آج
دریچے بند ہیں، تازہ ہوا نہیں آتی
ہمارے کُہنہ مرض کی دوا نہیں آتی
نہ جانے کون سی دنیا میں ہیں، کہاں ہیں ہم
کہ داستاں میں فقط زیبِ داستاں ہیں ہم
معاشرے میں تمیز و تضاد ہے موجود
ایاز ایاز ہے، محمود ہے یہاں محمود
کوئی جنوں، کوئی دیوانگی نہیں اچھی
مزاجِ عصر سے بیگانگی نہیں اچھی
اگر لگن ہے زمیں پر قدم جمانے کی
شعورؔ! بڑھ کے عناں تھام لو زمانے کی
…………………………
ایک جملے کے لطائف
٭ ہر شخص کے اندر ایک ڈراؤنا انسان چھپا ہوتا ہے جو صرف شناختی کارڈ پر نظر آتا ہے…!
٭ دنیا کی سب سے تیز رفتار ترین چیز اتوار کی چھٹی ہے جو آناً فاناً گزر جاتی ہے…!
٭ حیرت انگیز چیزوں کے بارے میں ایک حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ انہیں دیکھ کر نئی نسل کو بالکل حیرت نہیں ہوتی۔
٭ جتنا غور سے لوگ ٹکرانے کے بعد ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اتنا غور سے اگر پہلے ہی دیکھ لیتے تو ٹکر ہی نہ ہوتی۔
محمد حمیدالدین ۔ چارمینار
…………………………
عصری ترقی !
مالکن نے نوکرانی کو ڈانٹتے ہوئے کہا : تم تین دن سے کام پہ نہیں آئی، اور بتایا بھی نہیں؟نوکرانی : ’’ باجی میںنے تو فیس بُک پر اسٹیٹس اپڈیٹ کر دیا تھا کہ
’’آئی ایم گوئنگ ٹو گائوں فار تھری ڈیز ‘‘
صاحب جی نے اس پر کمینٹ بھی کیا تھا
’’مِسنگ یو رضیہ ‘‘
شیخ داؤد ۔ ظہیرآباد
…………………………
خواب تو خواب ہے …!
٭ ایک کسان ماہر نفسیات کے پاس گیا اور کہنے لگا: ’’جناب! آج کل میں بڑے بُرے خواب دیکھتا ہوں۔ رات میں نے دیکھا کہ میں گدھا ہوں اور گھاس چر رہا ہوں ‘‘
کوئی فکر کی بات نہیں۔ ماہر نفسیات نے کہا۔
’’خواب تو خواب ہے ،اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟‘‘
’’لیکن جناب ! جب صبح میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنی چٹائی چبا ڈالی تھی ‘‘۔
کسان نے معصومیت سے جواب دیا۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
……………………………
کیا خدمت کرسکتا ہوں؟
٭ ایک صاحب کو ان کے سکریٹری نے انٹرکام پر اطلاع دی کہ ایک خوبصورت سی لڑکی آپ سے ملنے آئی ہے ۔ تو ان صاحب نے کہا ’’اسے چند سکنڈ کے بعد بھیج دینا ‘‘
اس کے بعد انھوں نے ریسیو ر اُٹھالیا ۔ اسی اثناء میں وہ لڑکی اندر داخل ہوگئی ۔وہ صاحب باتیں کرنے لگے : ’’ہاں بھئی وزیراعلیٰ اگر بات کرنا چاہتے ہو تو کہو ، میں مصروف ہوں۔ پھر کسی وقت بات کریں ۔ اور گورنر صاحب سے کہو ۔ میں فارغ ہوکر ان سے ملونگا اور ہاں وہ پچاس لاکھ کے چیک کا کیا ہوا ؟ کیش بنا یا نہیں ؟ اچھا جلدی سے مجھے اس کے بارے میں معلوم کرکے بتاؤ ، خدا حافظ ‘‘ ۔
اب انھوں نے پلٹ کر لڑکی سے پوچھا : جی فرمائیے ! میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟
لڑکی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا : ’’میں ٹیلی فون کے محکمہ میں ملازم ہوں اور آپ کا ٹیلی فون ٹھیک کرنے آئی ہو ں جو کل سے ڈیڈ ہے !‘‘
محمد عبدالوسیع شاداب ۔ کوٹگیر ، نظام آباد
……………………………