شیشہ و تیشہ

   

علامہ اسرار جامعیؔ
میٹھی زبان…!
اردو کا ایک آدمی جو آج کل ہے چُپ
ایسا نہ سمجھیں اردو سے وہ بدگمان ہے
شوگر کا وہ مریض ہے پرہیز ہے اُسے
اُردو کو لوگ کہتے ہیں میٹھی زبان ہے
……………………………
کریٹیکلؔ جگتیالی
مزاحیہ حزل
ہے چھچوندر جیسے ، اُن کا جگ ہے دیوانہ کتے
دیکھ کر مُکھڑے کو اُن کے چاند شرمانا کتے
کھاکو بیگم پورا مُرغا پڑگئی ہے پھیل کر
بکریوں کے جاکو میں باڑے میں سوجانا کتے
گھرجنوائی کے لئے سسرال کی یہ شرط ہے
بھول کر غیرت کو بے غیرت میں بن جانا کتے
ساس کو ریکھا کتے بیوی کو کترینہ کہو
اس طرح سے شاعری کا شوق فرمانا کتے
بھینس کی جیسی دُلہن، دُلھا مکوڑے کی طرح
اُس کی یہ شمع کتے وہ اس کا پروانہ کتے
سارے کاماں میچھ کرنا حکم یہ بیگم کا ہے
اُف بھی نہ کرنا کتے گُھٹ گُھٹ کو مرجانا کتے
مجھ سے کہتے ہیں کریٹیکلؔ آئے جب غیرت تمہیں
لیکے لوٹے میں پانی ڈُب کو مرجانا کتے
…………………………
شادی پارے …!
٭ شادی ایک ایسی جیل ہے جس میں اندر والا باہر آنا چاہتا ہے اورباہر والا اندر جانا چاہتا ہے ۔
٭ شادی ایک ایسا لڈو ہے جو کھایا سو پچھتایا جو نہ کھایا وہ بھی پچھتایا ۔
٭ شادی کے رشتے تو آسمانوں میں بنتے لیکن بھگتنا زمین پر پڑتا ہے ۔
٭ شادی کے روز مرد آخری بار ہنستا اور عورت آخری بار روتی ہے ۔
٭ شادی شدہ زندگی دکھتی جنت کی طرح ہے پھر دوزخ کی طرح رہتی ہے اور کنواری زندگی دوزخ کی طرح دکھتی ہے پر جنت کی طرح رہتی ہے ۔
٭ شادی صبر و شکر کا رشتہ ہوتا ہے ۔ بیوی میاں کو دیکھ کر شُکر کرتی ہے اور میاں بیوی کو دیکھ کر صبر کرتا ہے ۔
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
میں تمہاری ساس نہیں…!
٭ شادی ہونے کے بعد ساس اپنی بہو کا گھر کے لوگوں سے تعارف کراتے ہوئے کہتی ہے … بیٹی ! میں تمہاری ساس نہیں ، ماں ہوں ۔ اور یہ تمہارے سُسر نہیں ابو ہیں۔ یہ تمہارے دیور نہیں بھائی ہے اور یہ تمہاری نند نہیں بہن ہے ۔
بہو نے کہا ٹھیک ہے ممی میں سمجھ گئی ۔
شام کو جب شوہر تھکا ماندہ گھر آیا تو بہو نے کہا ’’ممی ،ممی ! بھیا آگئے کھانا لگادوں ؟‘‘
محمد عباد خان ۔ حمایت نگر
…………………………
کارکردگی…!
٭ تھانے کے ایک انسپکٹر نے ایک کانسٹیبل کو ایک ملزم کی چھ(6) تصاویر دکھا کر کہا، جاؤ ملزم کو تلاش کرو۔ شام کو کانسٹیبل واپس لوٹا اور فخر سے بتایا:’’جناب! پانچ ملزم گرفتار ہوچکے ہیں، چھٹے کی تلاش جاری ہے!۔‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
نہیں بیٹا …!
٭ فقیر سید وحیدالدین کے ایک عزیز کو کتے پالنے کا بہت شوق تھا ۔ ایک دفعہ فقیر صاحب اپنے عزیز کی موٹر میں بیٹھ کر علامہ اقبالؔ سے ملنے آئے ۔ موٹر میں اِن کے کتے بھی تھے ۔ یہ لوگ علامہ کی خدمت میں جا بیٹھے اور کتوں کو موٹر ہی میں چھوڑدیا ۔ تھوڑی دیر بعد علامّہ اقبالؔ کی ننھی بچی منیرہ بھاگتی ہوئی آئی اور کہنے لگی : ابا جان ! موٹر میں کُتے آئے ہیں ۔
علامہ نے ان حضرات کی طرف اشارہ کرکے کہا : ’’نہیں بیٹا ! یہ تو آدمی ہیں !‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………
آرزو !!
کبھی ہمارے گھر مہمان بن کر آنا
ہم آپ کو
چکن بریانی
قورمہ
تنگڑی کباب
مرغ مسلم
تندوری
چکن تکہ
اور دوسرے لذیذ ڈشس کس طرح بنائے جاتے ہیں اس کے بارے میں بتائیں گے !!
عبداللہ محمد عبداللہ ۔ چندرائن گٹہ
…………………………