شیشہ و تیشہ

   

شبنمؔؔ کارواری
مٹی کے کھلونے ؟
سیب میں وٹامن ہے وہ نہیں ہے کیلے میں
دودھ پانی والا ہے بھینس کے طبیلے میں
ہم خریدتے کیسے کوئی شۂ پلاسٹک کی
‘‘ مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
……………………………
طالب خوندمیری
کیا کروں؟
مصروفِ شغلِ ساغر و مینا رہا کروں
یا روز و شب عبادت و ذکرِ خدا کروں
’’عمرِ دراز مانگ کے لایا تھا چار دن‘‘
دو کٹ گئے ہیں اور دو باقی ہیں کیا کروں
…………………………
فرید سحرؔ
غزل ( طنز و مزاح)
(روح صفیؔ سے معذرت کے ساتھ )
جب کبھی اُن کی دید ہوتی ہے
اپنی مٹی پلید ہوتی ہے
پیسے والوں کی ہے کرامت یہ
اُن کی دنیا مرید ہوتی ہے
سائیڈ بزنس بھی ہے ضروری اب
اس سے اِنکم مزید ہوتی ہے
اک مصیبت ہے ہنس کے ملنا بھی
احمقوں کو اُمید ہوتی ہے
ہم بھی مولا کو یاد کرتے ہیں
جب ضرورت شدید ہوتی ہے
اپنا فیوچر اگر بنانا ہو
جی حضوری مفید ہوتی ہے
وردی والے کی ہے نشانی یہ
اس کی گالی جدید ہوتی ہے
ملنے جاتی ہیں جب وہ میکے میں
سحرؔ صاحب کی عید ہوتی ہے
…………………………
جگریات
٭ دہلی کے لال قلعے میں مشاعرہ تھا ۔ یہ ایک طرحی مشاعرہ تھا ۔ ’’ دل ‘‘ کا قافیہ باندھنا ضروری تھا ۔ دیکھنا یہ تھا کہ اس قافیئے کو کون شاعر کس ڈھنگ سے باندھتا ہے ۔ اساتذۂ وقت جمع تھے ۔ ان میں سیمابؔ اکبر آبادی بھی تھے اور جگرؔ بھی ۔ سیمابؔ نے اس قافیئے کو یوں باندھا
خاکِ پروانہ ، رگ گل ، عرق شبنم سے
اس نے ترکیب تو سوچی تھی مگر دل نہ بنا
شعر ایسا ہوگیا تھا کہ شور مچ گیا ۔ سب کا خیال تھا کہ اس قافیئے کو اس سے اچھا اب کوئی کیا باندھے گا ۔ سب کی نظریں جگر ؔ پر جمی ہوئی تھیں۔ معاملہ دل کا ہو اور جگر چوک جائیں وہ شعر پڑھا کہ سیمابؔ کا شعر ذہنوں سے محو ہوگیا ۔
زندگانی کو مری عقدۂ مشکل نہ بنا
برق رکھ دے میرے سینے میں مگر دل نہ بنا
یہ ایک ایسا دلچسپ مقابلہ ثابت ہوا کہ اسی مقابلے کو ردیف بدل کر اگلے مشاعرے کے لئے پیش کردیا گیا یعنی ’’دل نہ بنا ‘‘ کے بجائے ’’ دل بنادیا ‘‘ پر طبع آزمائی کرنی تھی ۔
یہ مشاعرہ بھی لال قلعے دہلی میں ہوا ۔ اس مشاعرے میں حیدرؔ دہلوی کے شعر نے دھوم مچادی ۔
اک دل پر ختم قدرتِ تخلیق ہوگئی
سب کچھ بنادیا جو مرا دل بنادیا
حیدر ؔ دہلوی استاد وقت تھے اور خیام الہند کہلاتے تھے ۔ یہ شعر ایسا بے اختیار ہوگیا تھا کہ لگتا تھا کہ اب کوئی کیا کہے گا ۔ پھر بھی یہ اعتماد تھا کہ جگرؔ بیٹھے ہیں ۔ جگرؔ نے شعر پڑھا اور یادگار پڑھا ۔
بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا تو مرا دل بنادیا
مرسلہ : محمد مظفرالدین مجیب ۔ کرما گوڑہ
…………………………
ایک ہی رنگ کے
٭ کسی انگریز نے خواجہ حسن نظامی سے پوچھا ’’ خواجہ صاحب تمام انگریزوں کی رنگت ایک جیسی ہوتی ہے ، لیکن ہندوستانی باشندے اپنے رنگ روپ میں مختلف ہوتے ہیں ، اس کی کیا وجہ ہے ؟
خواجہ صاحب نے جواب دیا : اس میں تعجب کی کیا بات ہے ، تمام گھوڑے مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں ، لیکن گدھے سارے ایک ہی رنگ کے ہوتے ہیں ‘‘۔
شیخ فہد ۔ رائچور
…………………………
کچل دے …!
٭ دو چوہے شراب سے بھرے ڈرم میں گر پڑے ۔ بڑی مشکل سے نکلے اور بلند چٹان پر بیٹھ گئے ۔ نیچے سے ایک ہاتھی گزر رہا تھا ۔ اتفاق سے ایک چوہا ہاتھی کے اوپر گر پڑا۔
دوسرا چوہا نشے میں زور سے چلایا ’’یار جانے نہ پائے … ! کچل دے ! کم بخت کو !!
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………