شیشہ و تیشہ

   

خالدپرویز خالدؔ
عید کے روز بھی
عید کے روز بھی نہ ملنے آئے تم
تیری راہوں میں پھول بچھائے ہم نے
ہر لمحے رہے تیرا انتظار کرتے
دل میں کانٹوں کے دیدار پائے ہم نے
نہ بدلے کپڑے اور نہ سنوارے بال
کئی تن پہ روگ سجائے ہم نے
ملے سب ہی گلے عید اک دوسرے کو
لاکھ درد سینے سے لگائے ہم نے
تیرے الفت کے چرچے ہم رہے کرتے
یونہی اپنے ارمان گنوائے ہم نے
کیا حال بتائیں اپنی عید کا ہم خالدؔ
اشک آنکھوں میں اپنی سجائے ہم نے
…………………………
دلاور فگارؔ
مزاحیہ غزل
جادۂ فن میں بڑے سخت مقام آتے ہیں
مر کے رہ جاتا ہے فنکار امر ہونے تک
کتنے غالب تھے جو پیدا ہوئے اور مر بھی گئے
قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک
کتنے اقبالؔ رہِ فکر میں اُٹھے لیکن
راستہ بھول گئے ختمِ سفر ہونے تک
کتنے شبیر حسن خاں نہ بنے جوشؔ کبھی
مر گئے کتنے سکندرؔ بھی جگرؔ ہونے تک
فیضؔ کا رنگ بھی اشعار میں آ سکتا تھا
اُنگلیاں ساتھ تو دیں خون میں تر ہونے تک
چند ذروں ہی کو ملتی ہے ضیائے خورشید
چند تارے ہی چمکتے ہیں سحر ہونے تک
دل شاعر پہ کچھ ایسی ہی گزرتی ہے فگارؔ
جو کسی قطرے پہ گزرے ہے گہر ہونے تک
…………………………
مشورہ !
٭ ایک مشاعرے کے اختتام پر جب ایک نامور شاعر کو طے شدہ معاوضے سے کم رقم دی گئی تو وہ منتظمین پر پھٹ پڑے۔
’’ میں اس رسید پر دستخط نہیں کر سکتا‘‘۔
مجاز بھی وہیں موجود تھے۔ وہ نہایت معصومیت سے منتظم سے بولے:
’’اگر یہ دستخط نہیں کر سکتے تو ان سے انگوٹھا ہی لگوا لو‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
کس لئے ؟
جج ملزم نمبر 1 سے : تم کو عدالت میں کس لئے لایا گیا ہے؟
ملزم نمبر 1 : حضور میں فٹبال سے کھیل رہا تھا ۔
جج ملزم نمبر 2 سے : اور تمہیں ؟
ملزم نمبر 2 : حضور میں بھی فٹبال سے کھیل رہا تھا !
جج تیسرے شخص سے : اور تم کیوں آئے ہو؟
تیسرا شخص : حضور ! وہ ’فٹبال‘ میں ہی تھا !!
ایم اے وحید رومانی ۔ پھولانگ ، نظام آباد
…………………………
فرق !
ٹیچر ( شاگردوں سے ) : پتہ ہے بل گیٹس جب تمہاری عمر کا تھا تو جماعت میں اول درجہ پر آیا کرتا تھا ۔
ایک شریر شاگرد : اور ٹیچر جب ہٹلر آپ کی عمر کا تھا تو اُس نے خودکشی کرلی تھی !
سید جمیل الرحمن ۔ حکیم پیٹھ ، ٹولی چوکی
……………………………
ذرا اِدھر بھی !!
٭ سڑک کے کنارے ایک فقیر بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا، ایک آدمی اُدھر سے گزرا تو اندھے فقیر نے آواز دی ’’ ارے ٹوپی والے بابو !ذرا اِدھر بھی دیکھو، اس اندھے فقیر کو بھی کچھ دیتے جاؤ۔‘‘
عبداﷲ محمد عبداﷲ ۔ چندرائن گٹہ
…………………………
اچھا …!
گاہک : ایک انڈا کتنے کا ہے ؟
دکاندار : ٹوٹا ہوا پانچ روپئے کا ، اور ثابت آٹھ روپئے کا ۔
گاہک : اچھا ! تو یہ ثابت انڈے توڑ توڑ کر اس برتن میں ڈال دو ۔
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………
خاموشی !
٭ میاں بیوی سینما دیکھنے گئے ۔ شوہر نے بیوی کے لئے ایک پان خریدا ۔
بیوی نے شوہر سے کہا : ’’ایک پان آپ بھی لے لیجئے!؟‘‘
شوہر نے جواب دیا : میں بغیر پان کے بھی خاموش رہ سکتا ہوں !۔
سید مجتبی حسین ۔ نلگنڈہ
…………………………