شیشہ و تیشہ

   

انور مسعود
گیس
جو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلے سے بڑھ کے تھی
ہر ضربِ کربناک پہ میں تِلمِلا اْٹھا
پانی کا، رسوئی گیس کا، بجلی کا، فون کا
بِل اتنے مِل گئے ہیں کہ میں بِلبِلا اْٹھا
…………………………
حسن عسکری
مزاحیہ غزل ( بی پی )
اچھّے اچھوں کو بھی بستر پر لٹادیتا ہے بی پی
بڑھ جائے یا کم ہو تو رُلا دیتا ہے بی پی
باتیں کوئی ٹنشن کی کرے ، ہم سے تو یارو
فی الفور رنگ اپنا دکھا دیتا ہے بی پی
چیک اپ بھی تو کرنا ہے ضروری کبھی کبھار
بس ڈاکٹر کی فیس بڑھا دیتا ہے بی پی
جب سے ہوا ہوں مبتلا اس مرض میں یارو
چڑھتا ہے جب ، بیگم سے لڑا دیتا ہے بی پی
میں چار گام چل کے بھی تھک جاتا ہوں اکثر
کمبخت مجھکو یونہی تھکا دیتا ہے بی پی
بیگم نے کہا بیمہ کے کاغذ تو بتانا
اکثر مزار خود کی دکھا دیتا ہے بی پی
زردار ہو ، غریب ہو ، یا ہو کوئی جوان
سب کو بہت ضعیف بنادیتا ہے بی پی
جینا حرام کردیا بی پی کے زور نے
کم ہو یا ہو زیادہ ، سزا دیتا ہے بی پی
بی پی میں اور بیوی میں کیا فرق ہے حسنؔ
بیوی کو بلاتا ہوں تو ، آجاتا ہے بی پی
…………………………
برڈفلو
مریض : ڈاکٹر سے رجوع ہوکر مجھے دست اور الٹیاں ہونے لگی ہیں ۔
ڈاکٹر : رات میں کیا کھائے ہو ؟
مریض : چکن بریانی اور چکن فرائی ۔
ڈاکٹر : اس لئے آپ کی طبیعت بگڑگئی ہے ۔
مریض کیا مجھے برڈ فلو ہوگیا ہے ؟
ڈاکٹر : نہیں اوور فلو ۔
محمد مسعود علی ۔ اندول
…………………………
اگرچہ تلخ ہے !
٭ دلی میں ایک بہت مشہور گانے والی تھی جس کا نام ’شیریں‘ تھا مگر اسکی ماں بہت بی ڈول اور بُری شکل کی تھی، ایک مجلس میں شیریں اپنی ماں کے ساتھ گانے اور مجرے کیلئے آئی، سر سید بھی وہاں موجود تھے اور ان کے برابر ان کے ایک ایرانی دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ شیریں کی ماں کو دیکھ کر کہنے لگے : ’’مادرش بسیار تلخ است‘‘
(اسکی ماں بہت تلخ ہے)
اس پر سر سید نے فوراً جواب دیا :
’’گرچہ تلخ است ولیکن بر شیریں دارد‘‘
(اگرچہ وہ تلخ ہے لیکن پھل ’شیریں‘رکھتی ہے)
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
لیکن …!
٭ دو عورتیں آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کررہی تھیں ۔ ایک نے کہا : پچھلے سال ایک جیوتشی نے میری بیٹی کے بارے میں پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک کروڑپتی سے اُس کی ملاقات ہوگی جو پہلے محبت اور بعد میں شادی ہوجائے گی اور پھر انکے جڑواں بچے پیدا ہوں گے ۔
’’تو کیا اس نجومی کی بات پوری ہوگئی ؟ ‘‘ دوسری عورت نے پوچھا۔
’’ہاں کسی حد تک ، کروڑپتی اسے ملا ، اس سے محبت بھی ہوئی ، جڑواں بچے بھی ہوئے لیکن .. شادی نہ ہوسکی ‘‘ پہلی عورت نے جواب دیا ۔
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
………………………
اندھیرے میں !
بیٹا ( باپ سے ) : ابّا ! کیا آپ اندھیرے میں بھی کچھ لکھ سکتے ہیں ۔
باپ : ہاں ! آخر بات کیا ہے ؟
بیٹا : میری اسکول رپورٹ پر دستخط کرنا ہے ۔
شعیب علی فیصل ۔ محبوب نگر
………………………
پریشانی کا سبب !
٭ ایک شخص کسی بیمار کی عیادت کو گیا اور جم کر وہاں بیٹھ گیا ۔ بیچارہ بیمار پریشان ہوا کیونکہ وہ کسی طرح ٹلنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ آخر اُس نے مجبوراً کہا ’’مجھے آنے جانے والوں کی کثرت نے پریشان کردیا ہے !‘‘اتنا کہنے کے باوجود بھی وہ شخص بیمار کا اشارہ سمجھ نہ سکا اور بولا : ’’آپ فرمائیں تو اُٹھ کر دروازہ بند کردوں ؟ ‘‘
بیمار نے عاجز آکر کہا : ’’ہاں ! لیکن باہر سے!‘‘
محمد امتیاز علی نصرتؔ ۔ پدا پلی
…………………………