شیشہ و تیشہ

   

تجمل اظہرؔ
وارننگ …!!
یہ دنیا سے ذرا سن لے تو خالی ہاتھ لوٹے گا
حکومت بھی نہ ہوگی اور کروفر بھی جائے گا
یہ موجیں بھی سمندر ہی میں بہتی ہیں تو بہنے دے
اگر موجوں کو روکے گا تو پھر سیلاب آئے گا
…………………………
شیخ احمد ضیاءؔ ، شکرنگر
مزاحیہ غزل
غالب کا رنگ میر و ظفر کی زمین ہے
ہر شعر اس غزل کا بڑا دلنشین ہے
کہتا ہے سرخ وائٹ کو ریڈ کو گرین ہے
بچہ ہمارے دور کا ہم سے ذہین ہے
اردو میں رشتے جوڑنے والا ہے مشاطہ
انگلش میں اُس کا ترجمہ ویلڈنگ مشین ہے
اک شعر پر تناؤ ہے دو شاعروں کے بیچ
وجہہ لڑائی زن ہے نہ زر نہ زمین ہے
ٹنشن فری گذارنا ہے دن اگر تمہیں
بیگم سے کہو اب بھی وہ کافی حسین ہے
جو ملتا ہے کھا جاتا ہے کچھ چھوڑتا نہیں
نیتا ہمارے گاؤں کا مسٹر کلین ہے
بیوی ہے آج موجِ بلا ، زندگی کا بوجھ
معشوقہ مگر آج بھی زہرہ جبین ہے
جو منکرِ حجاب تھا کل کہہ رہا ہے آج
عورت وہی ہے خوب جو پردہ نشین ہے
کیسے ملیں گے عاشق و معشوق اے ضیاءؔ
جب درمیان دونوں کے دیوارِ چین ہے
………………………
راحتؔ کا سوال …؟
٭ ڈاکٹر راحت ؔ اندوری کسی مشاعرے میں غزل سنارہے تھے ۔ غزل کا شعر کچھ یوں تھا ؎
زباں تو کھول نظر تو ملا جواب تو دے
میں کتنی بار لُٹا ہوں مجھے حساب تو دے
سامعین میں سے کسی نے کہا راحت بھائی ! آپ جس لڑکی سے حساب مانگ رہے ہیں وہ حساب میں بہت کمزور ہے ۔ کوئی اور لڑکی دیکھئے …!!
محمد حامداﷲ۔ حیدرگوڑہ
…………………………
… بات تو سننے دو !
٭ ایک صاحب گھبرائے ہوئے گھر آئے ، بیوی سے بولے : ’’ بیگم میں دفتر سے آرہا تھا راستے میں ایک گدھا…‘‘ اتنے میں ان کی ایک بچی بول اُٹھی: ’’ امی کسی نے میری گڑیا توڑ دی‘‘۔
بیوی نے کہا : اچھا بیٹی ہم تمہیں دوسری گڑیا لادیں گے۔‘‘
شوہر نے پھر کہنا شروع کیا:’’ ہاں، تو بیگم میں کہہ رہا تھا کہ راستے میں ایک گدھا …‘‘ اتنے میں ان کا ایک لڑکا بول اُٹھا ’’ امی ! گڈو نے مجھے مارا ہے۔‘‘
بیوی جھلا کر بولی ’’ تم لوگ چُپ ہوجاؤ، مجھے گدھے کی بات سننے دو۔‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
……………………………
خطوط پڑھو
استاد ( شاگردسے ) ’’اردو کی کتاب نکالو اور مرزا غالب کے خطوط پڑھو‘‘۔
شاگرد : ’’معاف کیجئے گا جناب میں نہیں پڑھوں گا ‘‘
استاد ( غصے سے ) ’’وہ کیوں‘‘
شاگرد : ’’جناب ! دوسروں کے خطوط پڑھنا بری عادت ہے ‘‘۔
محمد نعیم ۔ چندرائن گٹہ
…………………………
اچھا…!
٭ جھگڑالو بیوی ہمیشہ شوہر پر شک کرتے رہتی تھی ، اُس کے شک سے تنگ آکر شوہر نے نہ صرف داڑھی چھوڑ لی اور ٹوپی پہننا شروع کردیا بلکہ پابندی سے نمازکو جانے لگا۔ یہ دیکھ کر بیوی بولی ’’اچھا …! تو اب تم حوروں کی چکر میں ہو …!!‘‘۔
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
تو کیا !
٭ ایک شخص طوفانی بارش میں بھیگتا ہوا بیکری پہنچا اور برگر کا آرڈر دینے لگا ۔
بارش میں شرابور گاہک سے بیکری ملازم نے از راہ ہمدردی دریافت کیا : صاحب ! آپ کی شادی ہوگئی ہے کیا ؟
وہ شخص جو پہلے ہی سردی سے پریشان تھا ، جھنجھلاہٹ سے کہا : ’’تو کیا ایسی طوفانی بارش میں مجھے برگر (Burger) لانے کیلئے میری ماں مجھے یہاں بھیجتی ؟
اسری رحمن ،سید جمیل الرحمن ۔ گائتری کالونی
…………………………