صحابہ کرام کی عدالت پراہلسنت و الجماعت کا اتفاق

   

صحابہ کرام کی عدالت پر اُمت اسلامیہ کا نسل درنسل سے اتفاق چلا آرہا ہے ۔ تاہم ہر دور میں چند ایسے گروہ ضرور پائے جاتے ہیں جو جمہور اہل اسلام کے عقیدہ کے خلاف بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے متعلق مثبت رائے نہیں رکھتے ہیں ۔ کسی کو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے شکوے ہیں ، کوئی اُن کی عظمت کے قائل تو ہیں لیکن تمام صحابہ میں افضل ہونے کے منکر ہیں۔ کسی کو اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے بغض ہے اور کوئی حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بیر رکھتے ہیں۔
اہلسنت والجماعت کے محقق علماء نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی عظمت اور مدحت پر سو آیات قرآنی سے استشھاد کیا ہے اور جب اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کاتزکیہ فرمایا ( ان کی پاکیزگی کا ذکر کیا) اور ان کی تعدیل کی ( ان کے عادل ہونے کو ثابت کیا) نیز نبی اکرم ﷺ نے ان کی تعدیل و تزکیہ فرمایا اور ان کے فضائل اور عظمت کو کثرت سے بیان فرمایا تو مخالفین کی نہ تعدیل کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی تنقید اور جرح کا اعتبار ہے ۔ اور نہ ہی ان کی مخالفت اجماع اُمت پر اثرانداز ہوتی ہے ۔ واضح رہے کہ اہلسنت والجماعت کے نزدیک تمام صحابہ کرام عادل ہیں۔ ان میں سابقین اولین، مہاجرین و انصار فتح مکہ سے قبل اور فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے اور جو فتنوں سے پہلے وفات پائے اور جو فتنوں کے وقت شریک رہے نیز جنھوں نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جنگ کی اور جو حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے ساتھ رہے سب شامل ہے۔ اصول حدیث کی معتبر و مستند کتاب ’’مقدمۃ ابن صلاح‘‘ میں ہے ’’اُمت تمام صحابہ کرام کی تعدیل پر متفق ہے اور ان صحابہ کی تعدیل پر جو فتنوں میں شریک رہے اسی پر علماء اُمت کا اجماع ہے جن کا اجماع میں اعتبار ہے ۔ (مقدمہ ابن صلاح : ۴۲۸)
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں : اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں البتہ چند اصحاب بدعت اس میں اختلاف کرتے ہیں۔(الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد اول ص : ۱۷۔۱۸)
امام عراقی شرح الفیۃ العراقی میں رقمطراز ہیں : تمام اُمت صحابہ کرام کی عدالت پر متفق ہے جو فتنوں میں شریک رہے اور جو نہیں رہے سب عادل ہیں۔ فتنوں کا آغاز حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے ہوا ان کی عدالت پر علماء اُمت کااجماع ہے ۔ جن کا اجماع میں اعتبار ہے یہ صحابہ کرام سے حسن ظن کی بناروا ہے اور ان کے مابین ہوئے اختلافات کو ان کے اجتہاد پر محمول کیا جاتا ہے ۔
(شرح الفیۃ العراقی جزء : ۳ ص : ۱۳۔۱۴)
حافظ ابن حمز فرماتے ہیں: تمام صحابہ بلاشبہ جنتی ہیں۔ ( الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ۔۱؍۸)
اہلسنت والجماعت کے برخلاف معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں مگر جنھوں نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جنگ کی وہ عادل نہیں ہے ۔ (ابن رجب ، مختصر الاصول ۱؍۲) جبکہ اہلسنت والجماعت کے نزدیک وہ خطاء اجتہادی پر محمول ہے اس سے ان کی عدالت مجروح نہیں ہوتی ۔
(الابانۃ : ابوالحسن الاشعری ص : ۷۸)
خطیب بغدادی نے فرمایا : ’’ہر وہ حدیث جس کی سند نبی اکرم ﷺ تک پہنچتی ہے وہ اس وقت تک واجب العمل نہیں جب تک کہ اس کے رجال (راوی) کی عدالت ثابت نہ ہوجائے اور ان کے احوال پر غور و خوض نہ کیا جائے ۔ البتہ جب کوئی صحابی نبی اکرم ﷺ کی طرف نسبت کرتے ہیں تو ان کی عدالت کی ثبوت یا ان کے احوال پر غوروخوض کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی عدالت نص قرآنی سے ثابت ہے ۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کو عادل قرار دیا اور ان کی پاکیزگی اور چنندہ ہونے کو بیان فرمایا ٖ‘‘ ۔ بعد ازاں خطیب بغدادی صحابہ کرام کی عدالت و پاکیزگی پر آیات قرآنی اور احادیث شریفہ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’اگر آیات قرآنیہ اور احادیث شریفہ سے کچھ وارد نہ بھی ہوتا جو ہم نے نقل کیا ہے تب بھی صحابہ کرام کا ہجرت کرنا ، اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا ، دین اسلام کی نصرت و حمایت کرنا ، اپنی لخت جگر اور مال و دولت کو خرچ کرنا ، اپنے اہل و عیال کو قربان کرنا ، دین کے معاملہ میں خیرحواہی کرنا نیز ان کی قوتِ ایمانی اور قوتِ یقین ان کی عدالت و پاکیزگی کے لئے قطعی الثبوت دلائل ہیں اور وہ بعد آنے والوں کی تعدیل و تزکیہ سے تاقیامت بلند تر اور افضل ہیں۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ ص : ۱۵)
عقیدۂ اہلسنت والجماعت کا خلاصہ وہی ہے جس کو امام طحاوی نے اپنی معروف کتاب ’’عقیدۂ طحاویۃ ‘‘ میں بیان فرمایا : ہم صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں کسی صحابی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور نہ کسی صحابی سے برأت کا اظہار کرتے ہیں اور ہم ہر اُس شخص سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ سے بغض رکھتا ہے اور اُن کا خیر کے علاوہ ذکر کرتا ہے ، صحابہ کی محبت ہی دین ہے ، ایمان ہے اور احسان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ، نفاق ہے ، اور سرکشی ہے اور ہم رسول اﷲ ﷺ کے بعد خلافت کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے ثابت کرتے ہیں ان کو تمام اُمت میں سب سے افضل اور سب سے مقدم جانتے ہیں ، پھر آپ کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے لئے پھر حضرت عثمان رضی اﷲعنہ کے لئے پھر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لئے وہی خلفاء راشدین اور ہدایت یافتہ امام ہیں‘‘ ۔
ایک شخص امام ابوزرعہ رازی کی خدمت میں کہنے لگا : اے ابوزرعہ ! میں معاویہ (رضی اللہ عنہ ) سے بغض رکھتا ہوں ۔ انھوں نے دریافت کیا: کیا وجہ ہے ؟ اس نے کہاکہ انھوں نے علی رضی اﷲ عنہ سے جنگ کی۔ ابوزرعہ نے جواب دیا بلاشبہ معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پروردگار رحیم ہے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے فریق ( یعنی حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ ) کریم ہیں ، تمہارا کیا تعلق کہ تم ان دونوں کے معاملہ میں مداخلت کرو۔ ( تاریخ ابن عساکر ، تذکرہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ )
صحابہ کرام کی شان وہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو ’’رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ‘‘ (یعنی اﷲ ان سے راضی ہے اور وہ اﷲ سے راضی ہیں) کے لقب سے یاد فرمایا اور ’’وَالَّذِیْنَ آمَنُوْ مَعَہٗ ‘‘ (یعنی وہ جو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی معیت میں ایمان لائے ہیں ان کی تعریف کی ۔ نیز اعلان فرمایا : … (یعنی قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ نبی مکرم اور وہ لوگ جو ان کی معیت میں ایمان لے آئے (یعنی صحابہ ) ان کو ہرگز رسوا نہیں فرمائیگا ۔ اسقدر واضح اور قطعی برا ء ت کے بعد اگر کسی کو کسی صحابی رسول سے بغض ، نفرت یاکراہیت ہو تو یہ محرومی اور گمراہی ہے ۔