طالبان حکومت مالیہ کہا سے اکٹھا کریں گے

   

حنیف صوفی زادہ
افعانستان میں اب طالبان نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور عبوری حکومت بھی تشکیل دے دی ہے۔ طالبان نے اشرف غنی حکومت اور اس کی فوج کو شکست دی اور امریکہ کو بھی تحلیہ پر مجبور کیا۔ باالفاط دیگر طالبان نے امریکہ پر بھی فتح حاصل کی۔ اب جبکہ طالبان نے عبوری حکومت تشکیل دے دی ہے ان کے لئے کئی چیلنجز منتظر ہیں۔ اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ طالبان اپنی حکومت میں ملک کی معیشت کو کس راہ پر گامزن کرتے ہیں اور معاشی لحاظ سے ملک کی حالت کیسے سدھارتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ پچھلے 20 برسوں سے امریکی حکومت اور دوسرے ممالک نے افغان حکومت کی غیر فوجی بجٹ میں غیر معمولی مدد کی ہے۔ ساتھ ہی طالبان کے خلاف لڑائی میں خرچ ہونے والا ایک ایک پیسہ بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ادا کئے۔ اس کے باوجود 15 اگست 2021 کو طالبان بڑی آسانی سے کابل میں داخل ہو گئے اس سے قبل ہی صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت کے اہم رہنماؤں نے افغانستان سے راہ فرار اختیار کی۔ ان تمام بالخصوص اشرف غنی پر یہ الزامات عائد کئے گئے کہ وہ فرار ہوتے ہوئے کئی ملین ڈالرس اپنے ساتھ لیکر فرار ہوئے۔ اشرف غنی کی خوش قسمتی یہ ہیکہ انہیں متحدہ عرب امارات نے پناہ دی۔ بہرحال افغانستان میں امریکہ کو شکست ہوچکی ہے۔ طالبان نے عبوری حکومت قائم کرلی ہے ایسے میں افغانستان کو امریکہ کی جانب سے دی جاتی رہی امداد بند ہونے کا پورا پورا امکان پایا جاتا ہے۔ طالبان کے لئے بری خبر یہ ہیکہ امریکہ نے افغان سنٹرل بینک کے بیرونی ذخائر کو منجمد کردیا ہے۔ ان حالات میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے دوسرے طریقے اور وسائل استعمال کرنے ہوں گے۔ راقم برسوں سے طالبان اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کے مالیہ یا مالی امور کا قریب سے جائزہ لیتا رہا ہے اور میں نے یہ جائزہ سنٹر فار افغانستان اسٹڈیز کے اقتصادی پالیسی تجزیہ نگار کی حیثیت سے لیا ہے۔ میں یہ اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں کہ طالبان اپنی حکومت میں مالیاتی امور بالخصوص ملازمین کی تنخواہیں کیسے ادا کریں گے کیونکہ وہ پچھلے 20 برسوں سے اقتدار میں نہیں تھے ایسے میں مالی امور بھی ان سے بہت دور رہے۔
افغانستان اب بہت بدل چکا ہے: ۔
1990 کے دہے میں افغانستان آج کے افغانستان سے ایک بالکل مختلف ملک تھا۔ اُس وقت ملک کی آبادی بھی 20 ملین نفوس سے کم تھی اور عالمی امدادی گروپوں کا ان پر انحصار تھا۔ خاص طور پر کچھ خدمات عالمی امدادی گروپوں کی جانب سے فراہم کی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر 1997 میں طالبان حکومت کا جو بجٹ تھا وہ صرف ایک لاکھ ڈالر تھا جو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی ناکافی تھا، جبکہ سارے ملک کے انتظامی اور ترقیاتی ضرورتوں کے لئے کافی رقم درکار تھی۔ ایسے میں کوئی بھی یہ سوچ سکتا ہیکہ صرف ایک لاکھ ڈالرس کے بجٹ سے کیا ہوسکتا تھا لیکن آج افغانستان کافی حد تک بدل چکا ہے۔ آبادی میں قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے اور شہریوں کی ضروریات اور مختلف خدمات سے متعلق توقعات بھی بڑھ گئی ہیں۔ مثال کے طور پر نگہداشت صحت، تعلیم اور افادیت کی حامل بنیادی چیزوں کے تعلق سے افغان شہریوں کی توقعات کافی بڑھ گئی ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہوگا کہ سال 2020 میں افغانستان کا غیر فوجی بجٹ 5.6 ارب ڈالرس رہا جس کے نتیجہ میں کابل جنگ و جدال سے ایک تباہ شہر سے ایک جدید شہر اور دارالحکومت میں تبدیل ہوا۔ کابل میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر عمل میں لائی گئی انٹرنیٹ کیفے کا جال پھیلایا گیا۔ رسٹورنٹس قائم کئے گئے اور یونیورسٹیز قائم کی گئیں۔ غرض مذکورہ بجٹ سے کابل کی حالت بدل گئی۔
طالبان اب رقم کہاں سے حاصل کرپائیں گے:
اسی دوران طالبان کے یہاں بھی اپنی حکومت کی آمدنی کے وسائل پیدا کرنے کا خواب ہوگا۔ ان لوگوں نے بھی کچھ منصوبے بنائے ہوں گے جس طرح ان لوگوں نے امریکہ اور اس کے حلیفوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے دوران مالیہ کی فراہمی کے وسائل پیدا کئے۔ ہوسکتا ہیکہ ملک میں اپنی حکومت کے لئے بھی وہ آمدنی کے وسائل پیدا کرلیں گے۔صرف 2019-20 مالی سال میں طالبان نے مختلف ذرائعوں سے 1.6 ارب ڈالرس حاصل کئے۔ اُس برس طالبان نے 416 ملین ڈالرس افیون کی فروخت سے حاصل کئے جبکہ 400 ملین ڈالرس معدنیات کی کانکنی کے ذریعہ حاصل کئے۔ ان میں فولاد، ماربل اور سونے کی کانکنی شامل ہے۔ طالبان کو 240 ملین ڈالرس خانگی عطیہ دہندگان اور گروپوں سے حاصل ہوئے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں اور دوسرے اداروں کا یہ ماننا ہیکہ کئی ملکوں بشمول روس، ایران، پاکستان اور چین نے طالبان کی مالی مدد کی ہے۔ انہیں مالیہ فراہم کیا ہے اور ان ہی وسائل یا ذرائعوں کے ذریعہ طالبان کثیر مقدار میں ہتھیار خریدنے اور اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کے قابل بنے۔ طالبان نے امریکی فوج کے تخلیہ کا بھی زبردست فائدہ اٹھایا اور چند ہفتوں میں ہی افغانستان کو فتح کرلیا۔
افغانستان کو درپیش چیلنجز :
جنگ جیتنا آسان ہے جبکہ ملک چلانا بہت مشکل ہے اور ایک ایسا ملک چلانا جو پہلے ہی سے کئی ایک مشکلات و مسائل کا شکار ہو۔ افغانستان فی الوقت شدید قحط سالی سے متاثر ہے جس سے 12 ملین یا آبادی کے ایک تہائی حصہ کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ خاص طور پر غذائی عدم سلامتی کی سطح بڑھ گئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ہنگامی صورتحال پائی جاتی ہے نتیجہ میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں جبکہ بیشتر بینکوں نے محدود رقم کے ساتھ اپنے اپنے دروازے کھولنے شروع کردیئے ہیں۔ دوسرے کئی ملکوں کی طرح افغانستان کی معیشت کورونا وائرس وباء کے نتیجہ میں متاثر ہوئی اور بعض لوگوں کو خوف ہیکہ ٹیکہ اندازی مہم میں سست روی وہاں کورونا کیسیس میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔ لوگ دوبارہ اس وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہیکہ نگہداشت صحت کی کئی سرکاری سہولتوں (اداروں) کو فنڈس کی قلت کا سامنا ہے۔ طالبان کو سنگین مالیاتی چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کے 9.4 ارب ڈالرس عالمی سطح پر منجمد کردیئے گئے ہیں اور ایسا طالبان کے اقتدار میں آنے کے فوری بعد کیا گیا۔ دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے نے ہنگامی ذخائر کے 400 ملین ڈالرس کی سربراہی معطل کردی ہے جبکہ یوروپی یونین نے 2025 تک افغانستان کو دی جانے والی 1.4 ارب ڈالرس کی مالی امداد تقسیم کرنے کا منصوبہ روک دیا ہے۔
نئی حکومت کی فنڈنگ کے 5 امکانی ذرائع : ۔
امکان ہیکہ طالبان 5 امکانی ذرائع سے مالیہ اکٹھا کریں گے۔ ایک تو کسٹمز اور محاصل کی وصولی کے ذریعہ آمدنی اکٹھا کی جائے گی۔ طالبان کا افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے ملک کی سرحدوں کے کراسنگس اور سرکاری دفاتر ان ہی کے کنٹرول میں ہیں۔ ایسے میں طالبان تمام امپورٹ اور دوسرے محاصل حاصل کریں گے۔
منشیات : طالبان نے واضح طور پر کہہ دیا ہیکہ وہ افغان کسانوں کو منشیات بالخصوص افیون کی کاشت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ وہ عالمی سطح پر خود کی حکومت کو تسلیم کئے جانے کے خواہاں ہیں۔ ہاں اگر عالمی سطح پر انہیں تسلیم نہیں کیا جاتا ہے تو وہ اپنا ذہن تبدیل کرسکتے ہیں۔ آپ کو بتادوں کہ افغانستان افیون اور ہیروئن کی عالمی سطح پر 80 فیصد اسمگلنگ کا ذمہ دار ہے۔ طالبان کے لئے آمدنی پیدا کرنے کا ذریعہ کانکنی کا شعبہ بھی ہے۔ اس کے پہاڑوں اور زمین میں کم از کم ایک کھرب ڈالرس مالیتی معدنیات موجود ہیں۔ چین ان معدنیات کی کانکنی کے لئے بے چین ہے۔
طالبان کے ذرائع آمدنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کئی غیر مغربی ممالک کئی حکومتیں ان کی مالی مدد کررہے ہیں اور ہوسکتا ہیکہ وہی ممالک طالبان حکومت کی مدد کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ افغان سنٹرل بینک کے ایک سابق عہدہ دار نے راقم کو بتایا کہ اگست میں اشرف غنی حکومت کے خاتمہ کے بعد ایک عرب ملک نے کئی ملین ڈالرس افغان معیشت میں داخل کئے ہیں تاکہ افغان معیشت کو سہارا دیا جاسکے۔ ویسے بھی چین نے طالبان حکومت کو ہنگامی امداد کے طور پر 31 ملین ڈالرس دیئے ہیں۔ چین جہاں کانکنی میں دلچسپی رکھتا ہے وہیں اپنی بیلٹ اینڈ روڈ پہل میں توسیع کا خواہاں ہے۔ طالبان ہوسکتا ہیکہ مغربی ممالک امریکہ، یوروپی یونین سے بھی امداد حاصل کرنا چاہیں گے۔