!عالمی دہشت گرد

   

چارہ گر کو دکھاؤ مداوا کرے
زخم سب کو دکھانے سے کیا فائدہ
!عالمی دہشت گرد
پاکستان کی جیش محمد تنظیم کے سربراہ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے عالمی کوششوں کو ایک بار پھر دھکہ پہونچاتے ہوئے چین نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو اختیارات کا استعمال کیا ہے ۔ 14 فروری کو جموں وکشمیر کے ضلع پلوامہ میں دہشت گرد خود کش حملے میں سی آر پی ایف کے 40 جوان ہلاک ہوئے تھے اس کے بعد سے پھر ایک بار مسعود اظہر کا نام عالمی ادارہ میں دہشت گرد قرار دینے کے لیے پیش کیا گیا ۔ برطانیہ ، فرانس اور امریکہ نے ہندوستان کے مطالبہ پر اپنے حصہ کی کوشش تو کی مگر جب چین کو حاصل اختیار بروئے کار لانے کا موقع ملا تو اس نے ہندوستان کو مایوس کردیا ۔ دہشت گردی کے ذریعہ معصوم شہریوں کا خون بہانے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے میں اگر اقوام متحدہ کے اندر ہی غیر متوازن پالیسی پائی جاتی ہے تو پھر اس مسئلہ پر آواز اٹھانے والی طاقتوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ معاملہ کب تک لیت و لعل کا شکار رہے گا ۔ اقوام متحدہ کی تحدیداتی کمیٹی نے ایک رکن کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے دہشت گردی کا لیبل لگانے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے تو پھر یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار رہے گا ۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے عالمی سطح پر ہر ملک اپنی دیانتداری کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے لیکن جب عملی تعاون کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس سلسلے میں رکاوٹ پیدا کردی جاتی ہے ۔ کسی نہ کسی بہانے یا فنی نکتہ نظر کے حوالے سے اب تک چار مرتبہ چین نے مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کے عمل کو روک دیا ہے ۔ چین کا استدلال اقوام متحدہ کے دیگر رکن ممالک کے لیے غور طلب ہے کہ وہ اس قرار داد کو منظور ہونے اس لیے نہیں دے گا کیوں کہ یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جس کی یکسوئی اس طرز پر اور سازگار ماحول میں ہونی چاہئے جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو ۔ امریکہ کو اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس ہے تب ہی اس نے مسعود اظہر کی اب تک کی کارروائیوں اور خون ریز واقعات کی فہرست کے تناظر میں انہیں عالمی دہشت گرد قرار دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے ۔ تاہم چین اس کوشش میں حائل ہوگیا ۔ دہشت گرد کارروائیوں کو انجام دینے والی تنظیمیں اور ان کے کارکنوں کو حاصل ہونے والے ہتھیاروں کے بارے میں توجہ دی جائے تو ہتھیاروں کی سربراہی کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے پر بھی غور ہونا چاہئے ۔ اسلحہ کی دوڑ پر روک لگانے کے بجائے اگر بڑے اقوام کا گروپ صرف سطحی کام کرنے لگے تو دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں کو کوئی راحت نہیں ملے گی ۔ تمام ممالک کو راست یا بالواسطہ طور پر اسلحہ کی سربراہی کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ ہتھیاروں کی فروخت اور ایک سے دوسرے ملک کو منتقل کرنے کے عمل پر پابندی لگائی جائے تو اس سے خون ریزی کے المناک واقعات میں کمی آسکتی ہے ۔ مسعود اظہر کے خلاف عالمی سطح پر آواز تو اٹھائی جارہی ہے مگر عملی طور پر جب کوئی قدم اٹھانے کا مرحلہ آتا ہے تو ہاتھ اٹھالیا جاتا ہے ۔ ہندوستان کو مسعود اظہر اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کے خلاف شکایت ہے ۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں خاص کر جیش محمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ پر حملہ ، پٹھان کوٹ ایر فورس پٹی کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں حملوں کے لیے ذمہ دار ہے اور جیش محمد نے خود یہ ذمہ داریاں قبول کی ہیں تو اس کے سربراہ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے میں کوئی امر حائل نہ ہونا چاہئے ۔ دہشت گردی کے نازک مسئلہ پر جب دو پڑوسی ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ خطہ کی پرامن صورتحال کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس اہم موضوع پر توجہ دینے کے بجائے خطہ کا دوسرا ملک رکاوٹ پیدا کرتا ہے تو پھر خطہ میں امن و استحکام کے تعلق سے کی جانے والی باتیں فضول ہی ثابت ہوں گی ۔ چین نے مسعود اظہر کے خلاف ثبوتوں کی کمی اور عدم اتفاق رائے کا عذر پیش کرتے ہوئے عالمی دہشت گرد قرار دینے سے روک دیا ہے تو پھر ہندوستان کے لیے اپنی کوشش جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا ۔۔