عبوری بجٹ ‘ صرف زبانی جمع خرچ

   

حوادث کے ستم سہہ کر بھی اس نے
شکن ماتھے پہ کچھ لائی نہیں ہے
مرکز کی نریندر مودی حکومت نے آئندہ لوک سبھا انتخابات سے قبل اپنا آخری بجٹ پیش کیا جو عبوری بجٹ تھا ۔ اس بجٹ میں حکومت نے ملک کے عوام کیلئے زیادہ کچھ اقدامات کرنے سے حسب روایت انکار کیا ہے اور حسب سابق صرف جملے بازیوں سے کام چلانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے پارلیمنٹ میں جو بجٹ تقریر کی ہے وہ بجٹ تقریر کم بلکہ انتخابی تقریر زیادہ نظر آ رہی تھی ۔ حکومت نے اس بجٹ کے ذریعہ ملک کے عوام کو ایک بار پھر سے سبز باغ دکھانے کی کوشش کی ہے کیونکہ کوئی جامع اقدامات کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اور جو اقدامات کا دعوی کیا جا رہا ہے ان کیلئے کسی طرح کے ایکشن پلان کا کوئی تذکرہ بجٹ میں شامل نہیں ہے ۔ حکومت نے اپنے بجٹ کے ذریعہ سیاحت کو فروغ دینے کی بات کی ہے ۔ ہاوزنگ پر توجہ دینے کا دعوی کیا ہے اورک ہا کہ قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے کیلئے حکومت اقدامات کرے گی ۔ بجٹ میں ایک طرح سے مڈل کلاس طبقہ کو گھیرنے کیلئے ان کی مدد کا اعلان کیا گیا ہے ۔ مڈل کلاس طبقہ سے وعدہ کیا گیا ہے کہ کرایہ کے گھر میں رہنے والوں ‘ سلم بستیوں میںر ہنے والوں اور غیر مجاز کالونیوںمیں مقیم افراد کو اپنا گھر تعمیر کرنے کیلئے امداد فراہم کی جائے گی ۔ یہ در اصل انتخابات سے قبل مڈل کلاس طبقہ کو رجھانے کی کوشش ہے کیونکہ اس سے قبل مرکزی حکومت بلکہ خود وزیر اعظم نریندرمودی نے 2022 تک ملک میں ہر بے گھر شہری کو گھر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اب تک اس کا کوئی تذکرہ بھی باقی نہیں رکھا گیا ہے ۔ پندرہ لاکھ روپئے کھاتے میں پہونچانے اور بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس لانے کے وعدے کی طرح ہر بے گھر شہری کو گھر فراہم کرنے کے وعدہ کو بھی انتخابی جملہ سمجھتے ہوئے فراموش کردیا گیا ہے اور اب نئے سرے سے انہیں ایک آس کا شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ وزیر فینانس نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ سابق میں ہر شہری کو گھر فراہم کرنے کے وعدے کی تکمیل کیوں ممکن نہیںہوسکی ۔ اب نئے وعدے کو پورا کرنے کیلئے حکومت کیا کچھ منصوبہ رکھتی ہے اور اس کیلئے فنڈز کی فراہمی کس طرح ہوگی ۔
وزیر فینانس نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ حکومت چار طبقات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے ۔ ان میںغریب ‘ خواتین ‘ نوجوان اور کسان شامل ہیں۔ حکومت نے یہ بھی واضح نہیںکیا ہے کہ ان پر توجہ دیتے ہوئے ان کی فلاح و بہبود کیلئے حکومت نے کیا منصوبے سوچ رکھے ہیں۔ حکومت کو یہ بھی واضح کرنا چاہئے تھا کہ اس نے گذشتہ دس سال کے وقفہ میں ان چاروں طبقات کیلئے کیا کچھ کیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ غریب عوام اب اور بھی غریب ہورہے ہیں اور ان کے پاس دو وقت کی روٹی کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں بن پا رہا ہے ۔ خواتین پر مظالم اور زیادتی کا سلسلہ بھی دراز ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ ملک کیلئے تمغے جیتنے اور ملک کا نام فخر سے اونچا کرنے والی مایہ ناز لڑکیوں کا جنسی استحصال ہو رہا ہے ۔ایسا کرنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں لیکن ان خواتین اور لڑکیوںکو انصاف نہیں دلایا گیا ۔ اسی طرح نوجوانوں کی بات کی جائے تو نوجوان آج صرف مزدوری کیلئے مجبور ہو رہے ہیں کیونکہ حکومت نے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے وعدے کو پورا نہیں کیا ۔ سالانہ 2 کروڑ روزگار کا وعدہ بھی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگیا اور اب اس پر سوال کا جواب تک نہیں دیا جا رہا ہے ۔ تاہم اب پھر نوجوانوں کو رجھانے کی کوشش ہور ہی ہے ۔ جہاں تک کسانوں پر توجہ دینے کی بات ہے تو سارا ملک جانتا ہے کہ کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کرنے والی حکومت اس معاملے میں بھی کس بری طرح سے ناکام رہی ہے ۔
حکومت مسلسل دعوی کر رہی ہے اور وزیر فینانس نے بجٹ تقریر میں بھی بتایا ہے کہ گذشتہ دس برس کے دوران جملہ 25کروڑ افراد کو غربت کی سطح سے اوپر لایا گیا ہے ۔ اگر واقعی یہ دعوی درست ہے تو پھر وہ 80کروڑ عوام کون ہیں جن کو حکومت ہر ماہ مفت راشن فراہم کر رہی ہے ۔ حکومت کی دونوں باتوں میں تضاد واضح دکھائی دے رہا ہے ۔ کس دعوی بھی سچائی ہے یہ حکومت ہی بہتر جانتی ہے ۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بجٹ توقعات کے مطابق نہیں رہا ہے اور صرف زبانی جمع خرچ پر توجہ دی گئی ہے ۔ سابقہ وعدوں کا کوئی تذکرہ کئے بغیر عوام کو نئے وعدوں سے رجھانے کی اپنے طور پر کوشش کی گئی ہے ۔