عدالت عالیہ کے ججوں بڑھانے کا بل آج راجیہ سبھا میں منظور

,

   

سپریم کورٹ نے ججوں کی تعداد 30 سے بڑھا کر 33 کرنے والے بل کو آج راجیہ سبھا میں کسی بحث کے بغیر اتفاق رائے سے منظور ہو گیا ہے۔جس کے ساتھ ہی اس بل پر پارلیمنٹ کی مہر لگ گئی۔ لوک سبھا میں یہ بل گزشتہ پیر کو ہی منظور کرلیا ہوگیا تھا۔

چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے کہا کہ آج اس اجلاس کا آخری دن ہے اور اراکین نے ابھی ابھی سابق وزیر خارجہ اور بی جے پی کی سینئر رہنما سشما سوراج کو خراج عقیدت پیش کی ہے ایوان کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیا جانا ہے اور ایوان میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کے متعلق بل کو کسی بحث کے بغیر منظور کرلیا جائے۔

اس پر اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کہ عدالت میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کرنے سے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ایوان میں عموماً عدلیہ کے بارے میں بحث نہیں ہوتی اور اس بل کے ذریعہ سے اراکین کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ عدلیہ پر اپنی بات رکھیں۔ ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں اس لئے اس پر بحث ہونی چاہیے۔

وینکیا نائیڈو نے کہا کہ لوک سبھا اسپیکر نے اس بل کو مالی بل کے زمرے میں رکھا ہے اس لئے اس کا راجیہ سبھا میں منظور ہونا ضروری نہیں ہے۔ وزیر قانون اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ ابھی اس بل کو منظور ہونے دیں اور حکومت آئندہ اجلاس میں اس سے متعلق امور پر بحث کرانے کو تیار ہیں۔ اس پر غلام نبي آزاد نے اپنی رضامندی ظاہر کردی۔

روی شنکر پرساد نے سپریم کورٹ (ججوں کی تعداد) ترمیمی بل 2019 ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بل میں معمولی ترمیم ہے جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو چھوڑ کر دیگر ججوں کی تعداد 30 سے بڑھا کر 33 کرنے کی با ت کہی گئی ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کے ستیش چندر مشرا نے کہا کہ حکومت کو اس میں ریزرویشن کا پہلو دھیان میں رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد ایوان نے بل کو کسی بحث کے بغیر اتفاق رائے سے منظور کرکے لوک سبھا کو واپس لوٹا دیا۔

چیئرمین نے کہا کہ راجیہ سبھا نے حال ہی میں جموں و کشمیر میں اقتصادی لحاظ سے کمزور طبقات کے لئے تعمیلی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں دس فیصد ریزرویشن سے متعلق بل منظور کیا تھا۔ لیکن جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹ جانے کے بعد اب اس بل کی ضرورت نہیں ہے اس لئے حکومت نے اسے لوک سبھا میں واپس لے لیا ہے۔ انہوں نے اراکین سے پوچھا کہ کیا لوک سبھا کو یہ بل واپس لینے کی اجازت ہے اس پر ایوان نے اتفاق رائے سے رضامندی ظاہر کی۔